
سول سوسائٹی نے توہین مذہب کے ملزم کی ماورائے عدالت، حراستی ہلاکت کی سخت مذمت کی؛ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ
کراچی، جوائنٹ ایکشن کمیٹی، انسانی حقوق کے محافظوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ایک گروپ نے میرپورخاص میں توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کی ماورائے عدالت، حراستی ہلاکت کی سخت مذمت کی ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر داخلہ سندھ سے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعہ کی دوپہر نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس سندھ کے دفتر میں انسانی حقوق کے محافظوں کے ایک اجلاس میں، سندھ کی سول سوسائٹی نے محکمہ داخلہ سندھ کی طرف سے آج جاری کردہ پولیس انکوائری کو مسترد کیا اور تمام پولیس افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا جن پر حراست میں قتل کا الزام ہے، جن میں ڈی آئی جی میرپورخاص جاوید جسکانی، ایس ایس پی میرپورخاص چوہدری اسد، ایس ایچ او سندھڑی نیاز کھوسو، سی آئی اے انچارج عنایت زرداری اور دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے یورپین کمیشن، امریکہ اور دیگر سفارت خانوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایسے بدنام زمانہ پولیس افسران کو ویزے اور اسکالرشپ نہ دیں، جو ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔

اجلاس جو بتایا گیا کہ خاندان نے بتایا ہےکہ منگل کو کیس درج کیا گیا تھا، جس پر انہوں نے رضاکارانہ طور پر ملزم کو کراچی میں پولیس کے حوالے کیا، اس کے باوجود پولیس نے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے بعد میں ماورائے عدالت قتل کر دیا۔ پولیس نے ملزم کو قتل کرنے کے بعد مزید دو مقدمات (ایف آئی آرز) درج کیے ہیں، جنہیں سول سوسائٹی نے ڈرامہ قرار دیا۔ رات کی تاریکی میں لاش کو خاندان کے حوالے کیا گیا، لیکن خاندان کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ہجوم نے قبرستان میں حملہ کیا اور تدفین سے روک دیا۔ جب خاندان نے اپنی ذاتی زمین پر تدفین کی کوشش کی تو ہجوم نے وہاں حملہ کیا اور لاش کو جلا دیا۔ پولیس نے جان بوجھ کر ان افراد کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جو ہجوم کی قیادت کر رہے تھے۔

ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہجوم کو اکسانے والے افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور انہیں گرفتار کیا جائے۔
انسانی حقوق کے محافظوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ معاشرے میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو گیا ہے اور لوگ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات میں خوف اور دہشت کا اظہار کر رہے ہیں۔
انہوں نے پولیس، حکومتی جماعت کے منتخب ایم این اے اور مذہبی انتہا پسندوں کے درمیان گٹھ جوڑ پر افسوس کا اظہار کیا، جو اس ہولناک واقعے کو جواز بنا رہے ہیں۔
این سی ایچ آر کی رکن (سندھ) محترمہ انیس ہارون کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نیٹ ورک کے علی پل، ایڈووکیٹ؛ شیرین اعجاز پروگرام مینجر لیگل رائیٹس فورم ،جسٹس (ریٹائرڈ) ماجدہ رضوی؛ قاضی خضر، وائس چیئرمین، ہیومن رائٹس کمیشن؛ سینئر صحافی سہیل سانگی، انسانی حقوق کے محافظ زاہد فاروق؛ کرشن شرما (ریاٹ نیٹ ورک)؛ پاسٹر غزالہ شفیق؛ لوک وکٹر؛ حبیبہ حسن، انیتا پنجوانی، بیرسٹر اختر حسین جبار اور دیگر نے شرکت کی اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایم این اے پیر امیر علی شاہ کے خلاف کارروائی کریں، جنہوں نے ملزم پولیس افسران کو ہار پہنا کر جرم کو بڑھاوا دیا۔
انسانی حقوق کے محافظوں نے این ایچ آر آئیز سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ان خلاف ورزیوں پر ایکشن لیں اور پولیس افسران کی معطلی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے ان کی گرفتاری کے لیے لکھیں۔
