دراز قد ،سانولی رنگت ،جینز اور شرٹ میں ملبوس ایک شخص کی آوازیں آج بھی کوئٹہ کے حالی روڈ پر واقع پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر کے اسٹوڈیو اے اور بی میں گونج رہی ہونگیں ،،،
اچھا جی اسٹینڈ بائے۔۔۔ یس کیو۔۔۔Don’t worry , نہیں بیٹا پر اعتماد رہے
کوئی بات نہیں ٹھیک نہیں ہوا تو دوبارہ ریکارڈ کرینگے۔ be confident
اچھا جی فلاح کے لیے زور دار تالیاں ۔۔۔۔بچوں کے مسکراتے چہرے اور پروگرام کی رونق کو چار چاند لگ جاتےتھے۔
لائٹ ،کیمرہ ،ایکشن کے شعبے کو پوری زندگی سونپنے والی اس شخص کو پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ میں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
جب کبھی بھی پاکستان ٹی وی انڈسٹری میں بچوں کے پروگرام کا ذکر ہوگا ،تو اطہر منگی کا نام نہ صرف سر فہرست ہوگا بلکہ بہترین پروڈیوسر،ہدایتکار اور رائٹر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔
اطہر منگی نے نہ صرف بچوں کے پروگرامز پروڈیوس کئے بلکہ ان پروگرامز
کے کئ گیت بھی لکھے جنہیں آج بھی اس وقت کے لوگ گنگناتے نظر آتے ہیں۔
بچوں کی نفسیات، تربیت صلاحیت ،معلومات اور تفریح سے بھرپور پروگرامز پروڈیوس کرنے والے اس شخص کو ریٹائرمنٹ کے بعد آج بھی پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ مرکز میں بےحد یاد کیا جاتاہے۔
سب سے پہلے تو آپ اپنے بچپن اور ابتدائی زندگی کے حوالے سے کچھ بتائیں؟
بچپن کی زندگی بھی عجیب بےفکری والی زندگی ہوتی ھے ۔
بچہ تو بچہ ہوتا ھے ، چاہے گوٹھ کا ہو یا شہر کا والدین اپنی اولاد کو خوش رکھنے کے لئے ، خوب محنت کرتے ہیں اپنے حالات کی مطابق انہیں خوش رکھنے کی ، پوری کوشش کرتے ھیں۔
اولاد کے لئے ، سب سے بڑی چیز ہوتی ھے والدین کا وقت ، عزت ، اہمیت ، خلوص و شفقت ، بات چیت اور اپنائیت اس کی کبھی کمی نہیں ہوئی ۔۔!!
اپنے والد کے متعلق بتائیں وہ کیا کیا کرتے تھے اور بچپن کیسے گذرا؟
مجھے فخر ھے کہ ، ہمارے والد صاحب ھاری/کسان تھے ، محنت کش تھے !!
اپنا خون ، پسينہ بہاکر ، اپنی محنت اور حلال کی کمائی سے ہمیں ، کھلایا پلایا ۔۔
اپنی نیک نیت اور شعور و آگہی کے مظابق ، ھماری تعلیم و تربیت کی ۔۔ !!
ہمارے والد صاحب کو ، اپنے گوٹھ میں ، اپنے اچھے کردار ، محنت کش ہونے اور ملنساری اور نیک نیتی کی وجہ سے پورے گوٹھ میں معتبر نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے ۔۔ !!
اپنے گوٹھ میں بچپن میں سارے کھیل کھیلے ، خوب مستیاں کیں ، زبردست ڈانٹیں بھی کھائیں ۔
جن میں بےحد پیار ، اور بھلائی شامل ہوتی تھی ۔ جس کا بعد میں خود بھی احساس ہوجاتا تھا ۔۔ !!
آپ نےکس شہر میں جنم لیا اور ابتدائی تعلیم کے سفر کے بارے میں آگاہ کریں؟
ميرا جنم ، گوٹھ واسُو کلھوڑو میں ، 28 – اپريل ، 1948 کو ہوا ۔
ان دنوں ، گوٹھ واسُو کلھوڑو تحصیل وارہ ، ضلع لاڑکانہ میں تھا ۔
اب تو وہ ، سیاسی مصلحتوں کے تحت بنائے ہوئے
اک نئے ضلع قمبر – شھداد کوٹ میں شامل ھے ۔۔ !!
پرائمری کی تعلیم گوٹھ کے پرائمری اسکول میں حاصل کی ، ہمارے پرائمری کے استاد کا نام تھا ۔
سائیں امام بخش کلھوڑو جو ھمارے گوٹھ سے ، کچھ فاصلے پہ واقع ، دوسرے گوٹھ وَدھو کلھوڑو سے روزانہ ، پیدل ، آتے تھے ، ھمیں پڑھانے کے لئے ، ایک دوسرے استاد بھی تھے ، سائیں حافظ محمد کامل کلھوڑو جو خاص طور پر ناظرہ قرآن شریف پڑھاتے تھے ۔
اپنے گوٹھ سے ، پرائمری کی ، پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد ، سیکنڈری تعلیم حاصل کرنے کے لئے ، اپنے آبائی گوٹھ واسُو کلھوڑو سے ، پانچ چھے ، کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع نصیر آباد شہر کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ، روزانہ پیدل ، اپنے سے ، بڑے بھائی مرحوم محمد مٹھل منگی کے ساتھ پڑھنے جاتا تھا ۔
چھٹی کلاس/چھٹی جماعت سے لے کر ، دسویں کلاس/ دسویں جماعت تک گورنمنٹ ہائی اسکول نصیر آباد سے تعلیم حاصل کی ۔
اس کے بعد 1966 میں دادو ، شفٹ ہوگئے کیونکہ ھمارے بڑے بھائی مرحوم پیربخش۔ایم۔منگی وہیں پہ ، کافی عرصے سے رھتے تھے
جو ، ڈسٹرکٹ کائونسل دادو میں ، پہلے ڈرافسثمئن پھر ترقی پاکر ، سب انجنیئر بنے ۔
ان کے ساتھ رھنے لگا اور دادو میں پڑھنے لگا ۔
بعد میں پوری فیملی ، دادو شفٹ ہوگئی ۔
اس طرح ھم ، گوٹھ واسو کلھوڑو کے بعد ، دادو کے
ھوگئے ۔۔ !!
آپ کے کتنے بھائی اور بہنیں ہیں ان سے متعلق کچھ بتائیں ؟
چاربہنیں اور پانچ بھائی ، بھائیوں میں میرا نمبر تیسرا اور ویسے والد صاحب کی اولاد میں،میرا چھٹا نمبر ہے۔۔۔!!
بڑے بھائی کا نام ،
مرحوم پیر بخش ۔ایم۔منگی (سب انجینئرڈسٹرکٹ کائونسل ، دادو)
دوسرے بھائی کا نام ،
مرحوم محمد مٹھل منگی ( ڈرافسٹمئن ، ڈسٹرکٹ کائونسل ، داداو)
تیسرا ، اطهر منگی (ریٹائرڈسینئر پروگرامز پروڈیوسر ، پاکستان ٹیلی وژن کوئٹہ مرکز)
چوتھے بھائی کا نام ،
مرحوم عبد الغنی ۔ ایم ۔ منگی
( ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفسر ، دادو)
چوتھے بھائی کا نام ،
مرحوم وزیر منگی (شعبہ ، تعلیم و صحافت ، ادب اور شاعری )
آپ کا اصل نام کیاہے اور آپ کے والد صاحب کا کیانام ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔ میرا جنم گوٹھ واسٌو کلھوڑو ۔۔۔۔۔
اصلی نام : علی نواز ، ادبی دنیا میں ، ” اطهر منگی ” کے نام سے مشھور۔
والد کا نام : مرحوم محمد فاضل منگی.
شاعری کن کن زبانوں میں کرتے ہیں؟ شاعری کے علاوہ اور کونسے ادب کے تخلیقی شعبوں سے دلچسپی ہے؟
شعبۂ تخلیق : شاعری ( سندھی/اردو ) بنیادی طور پہ سندھی زبان میں شاعری ۔۔ کالم نگاری ، تنقید نگاری اور افسانہ نویسی
آپ نے کس شعبے میں ایم اے کیاہے اور کون کون سے ٹی وی پروٖڈؑکشن کے کورسسز کئے ہیں؟
تعلیم : ایم اے( سندھی ادب ) بی۔ایڈ۔
پروفیشنل تعلیم ۔۔
ٹی وی پروڈکشن کے لئے ، پی ٹی وی اکیڈمی اسلام آباد سے چھ ماہ کا تربیتی کورس/ڈپلومہ۔
بچوں کے پروگراموں کی پروڈکشن کے لئے ، اسپیشل کورس ، پی ٹی وی اکیڈمی ،اسلام آباد۔
کمپیوٹر ڈیزائننگ کا اسپیشل کورس
آڈیو ، وڈیو ایڈیٹنگ کا اسپیشل کورس
ٹی وی پروڈکشن کے لئے ، الیکٹرانک افیکٹس کے ، استعمال کا ، اسپیشل کورس
ایوارڈز و اعزازات :
تین عدد ، پی ٹی وی ایوارڈز ۔
تعریفی خطوط:
1990 کی دہائی میں ، تین ، چار سہ ماہیوں تک چلنے والے ، ڈیلی مارننگ ٹراسنسمیشن (DMT ) کے پروگرام ، "سنہرے ہاتھ ” کے لئے ، اس وقت کے ، کنٹرولر پروگرامز ، غفران امتیازی کے مشورے سے ، ڈائریکٹر پروگرامز اور پی ٹی وی ڈرامے کے بڑے نام ، محمد نثار حسین سے ، تعریفی خط (Appreciation Letter )
مختلف ادبی ، سماجی اور ثقافتی تنظیموں کی طرف سے ، مختلف مواقع پہ ،کئی ایوارڈز ، شیلڈس ، اور
تعریفی اسناد ۔
آپ کے کتنے بچے ہیں انکے بارے میں بتائیں؟
میرے چار بیٹے ہیں اور ان کا بھی مختلف میڈیا نیٹ ورکس سے تعلق ھے۔
عرفان اطہر ( چائینز آفیشل میڈیاسے طویل عرصے سے منسلک ہیں)
عمران اطہر (ھم نیوز نیٹ ورک ، کراچی میں پروڈیوسر ہے)
فرحان اطہر ( پی ٹی وی کوئٹہ مرکز میں انجنیئرہے)
عدنان اطہر (آن لائن میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں)
آپ کا ادب کی جانب کس طرح رجحان ہوا؟
جب میں آٹھویں/نویں کلاس میں ، پڑھتا تھا تو ، میرے بڑے بھائی مرحوم پیر بخش ۔ایم۔منگی ، ضلع کائونسل دادو کے آفس میں ملازمت کرتے تھے اور ان کو ادب اور کتابیں پڑھنے سے دلچسپی تھی ۔۔
ھفتے یا پندرہ دن کے بعد ، جب بھی ، گوٹھ واسُو کلہوڑو آتے تھے تو ، مختلف رسائل اور کتابیں بھی اپنے ساتھ لاتے تھے ۔۔ اس طرح میرا رجحان پڑھنے کی طرف ہوا۔
گهر میں کتابیں اور رسائل موجود ہوتے تھے ۔
پہلے تو ، فرصت کے اوقات میں ، مختلف تصاویر دیکھنے کے لئے ، خاص طور پر سندھی میگزین ، ” نئیں زندگی ” کی ، ورق گردانی کرتا تھا ۔
جنرل ایوب خان کی ، حکومت کا دور تھا ۔
پھر آھستہ آھستہ ، یہ شوق بڑھتا چلا گیا اور دادو شفٹ ہونے کے
بعد ، مناسب ماحول ملنے کی وجہ سے ، کتابیں پڑھنے کا شوق ، پروان چڑھتا چلاگیا۔
آپ نے کب لکھنا شروع کیا ؟
کتابیں پڑھنے کی طرف تو میرا ذھن ، پہلے ہی راغب ہو چکا تھا
، لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھنے والے ، لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوتی تھی ۔۔
دادو میں ، تاج صحرائی ، استاد بخاری ، حافظ محمد احسن چنا ، ابوبکر خان مگسی ، احمد خان آصف مصرانی ، احمد خان مدھوش ، سومرو سودائی، اس وقت ، سندھی ادب کے بڑے نام ، شمار کئے جاتے تھے
، اس طرح مختلف ، ادبی محفلوں میں ، ان کو ، سن کے ، مجھے بھی لکھنے کا شوق ہوا ۔۔ اور پھر 70-1969 سے ، باقاعدگی سے ،
سندھی میں شاعری شروع کی !!
پہلی ملازمت اور پی ٹی وی کب سے جوائن کیا ؟
ميں 71-1970ع میں اپنے کیریئر کا آغاز بطور پرائمری ٹیچر (PST ) شروع کیا ۔۔
پھر جونیئر اسکول ٹیچر (JST) بنا ۔۔ اس کے بعد 1984ع میں ، پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں ، بطور ، اپرنٹس پروڈیوسر ، کی حیثیت سے جوائن کیا ۔۔ 1989ع کو پی ٹی وی کوئٹہ مرکز تبادلہ کرلیا گیا ۔
،
جہاں پر پانچ چھ ماہ بعد میرا پروموشن ہوگیا اور پروڈیوسر
پروگرامز بن گیا اور اپنی رٹائرڈ مینٹ تک ، پی ٹی وی کوئٹہ مرکز میں ، اپنی ذمیداریاں ، احسن طریقے سے ، انجام دیتا رھا ۔۔ !!
پی ٹی وی کوئٹہ مرکز میں ، بہت سارا کام کیا ۔
ہر فارمیٹ کے پروگرامز پروڈیوسر کئے ، وہاں کی ہر زبان میں پروگرامز پروڈیوسر کئے ۔
بلوچی ، براہوئی ، پشتو اور اردو میں جن میں ، ڈراما ، اسٹیج شوز ،
فلور شوز ، میوزک پروگرامز ، کئیز پروگرامز ، خواتین کے اسپیشل پروگرامز اور خاص طور پر ، بچوں کے پروگرامز ۔
بلوچی ، براہوئی میں بچوں کے پروگرامز پروڈیوسر کرنے کے کچھ عرصے بعد ، بچوں کے لئے اردو میں پروگرامز پروڈیوس کرنے کی ابتدا ، ایک عید شو کے پروگرام سے ہوئی ۔
اس کے بعد ، رٹائرمنٹ تک ، اردو میں ، بچوں کے لئے پروگرام پروڈیوس کرتا رھا ۔۔ بچوں کے لئے ، پی ٹی وی کوئٹہ مرکز سے ، نشر ہونے والے ، میرے آخری ، اسٹیج شو پروگرام کا نام تھا ، "پھول کلیاں”
یہ ذکر بھی ضروری سمجهتاہوں کہ ، اردو زبان میں ، بچوں کے لئے جس کوئیز شو ، پروگرام پروڈیوس کرنے کی ، مجھے سب سے پہلے ، ذمیداری دی گئی ، اس کا نام تھا ، ” سُوجھ بُوجھ” ، بچوں کا یہ پروگرام ، پی ٹی وی لاھور مرکز کے بعد ، اسلام آباد مرکز ، کراچی مرکز سے ہوتا ہوا ، پی ٹی وی کوئٹہ مرکز پہنچا تھا ۔
پی ٹی وی9 کوئٹہ مرکز کے ، اس وقت کے جنرل مینیجر اور پروگرام مینیجر نے ، ایک دن مجھے ، جی ایم آفس میں بلایا اور بتایا کے سوجھ بوجھ پروگرام ، اگلی سہ ماہی سے ، آپ کو ایلوکیٹ کریں گے ،
اسے ہر ھفتے ، دھیان سے واچ کرتے رھا کرو ۔۔ کوئٹہ مرکز کا پروگرام بھی اچھا ھونا چاھیے ۔
آپ ، ادب سے تعلق رکھتے ھیں ، امید ھے ، اچھا پروگرام پروڈیوس کرینگے ۔۔ آپ آج سے ، پروگرام کے لئے ، کمپیئر/میزبان
کی تلاش جاری رکھیں اور اسکرپٹ کی بھی تیاری کریں ۔
بچوں کو میڈیا نطر انداز کیوں کررہاہے؟
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ، بچہ ھمارا مستقبل ہوتا ھے ۔۔
اس کی تعلیم و تربیت کو ، کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔۔ دنیا اب کمرشلائیزڈ ہوگئی ھے ۔۔
ھماری ترجیحات بدل گئی ھیں ۔۔
پھر بھی بچوں کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔۔ ھمارے کئی نامور اداکار/ اداکارائیں اور گلوکار/گلوکارائیں ھیں ، جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بچوں کے پروگراموں سے شروع کیا ۔۔
جن میں سے خاص طور پر ، بشریٰ انصاری ، حدیقہ کیانی اور اس طرح کے کئی اور نام شامل ھیں ، جنہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ، بچوں کے پروگرام سے شروع کیا ۔
اس لئے ھمارے ٹی وی چینلز کے مالکان کو ، اس طرف خصوصی توجہ دینا چاہئیے ۔
ان کے کمرشل مفاد اپنی جگہ پہ ایک حقیقت ھیں لیکن بچے بھی ھمارے معاشرے کا اھم اور ناقابلِ نظر انداز حصہ ھیں ،
ان کی تعلیم ، تفریح اور تربیت کے لئے ، بچوں کے لئے پروگرام شروع کر کے ، ذمیدار شہری کا حق ادا کرنا چاھئیے اور قوم و ملک کا مستقبل روشن کرنا
چاھئیے .. کیونکہ آج کا بچہ کل کا باپ ھے ۔۔ !!
پی ٹی وی کراچی مرکز سے کونسے پروگرامز پروڈیوس کئے ؟
سوجهرو (مئگزين پروگرام ) ، پرکھ (اسٹیج شو) ، لطيفي لات (کئيز شو ) ، کچہری وغيره پروڈیوس کئے ۔
جب ، کراچی مرکز سے میرا کوئٹہ مرکز پہ تبادلہ ہوا تھا تو ان دنوں میں ، میں کراچی مرکز پہ ، پروگرام ، سوجهرو ، پروڈیوس کر رہا تھا
سوجهرو (میگزين پروگرام ) ، پرکھ (اسٹیج شو) ، گھڑیال (اسٹیج شو)لطيفي لات (کوئزشو ) ، کچہری وغيره پروڈیوس کئے ۔
جب ، کراچی مرکز سے میرا کوئٹہ مرکز پہ تبادلہ ہوا تھا تو ان دنوں میں ، میں کراچی مرکز پہ ، پروگرام ، سوجهرو ، پروڈیوس کر رہا تھا.
شاعری میں کس سے ذیادہ متاثر رہے ہیں ؟
میں اس رائے کا ہوں کہ شاعری ،
سماجی علموں کی سائنس ھے ، ہر شاعر کا اپنا انداز ، اپنی فکر ، اپنا مخصوص ماحول اور اپنی محسوسات ہوتی ھیں ۔
ایک شاعر کا دوسرے شاعر کے ساتھ مقابلہ کرنا ، کسی بھی حالت مناسب نہیں ہوتا بهرحال مجھے ،
سندھی شاعری کے حوالے سے ، شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد ، سچل سرمست ، شیخ ایاز ، استاد بخاری ، تنویر عباسی ، امداد حسینی ، وفا ناتھن شاھی ، ذوالفقار راشدی ھمیشہ میرے پسندیدہ شاعر رھے ھیں۔
اردو میں : غالب ، میر ، فیض احمد فیض ، منیر نیازی ، احمد فراز ، عطا شاد ، ادا جعفری ، پروین شاکر ، ظفر اقبال ، ساحردھیانوی ، گلزار ، جون ایلیا ، جاوید اختر،نزار قبانی وغیرہ
ان کے علاوہ ، پابلو نرودا اور ناظم الحکمت کی نظمیں بھی بہت پسند ھیں!!
پی ٹی وی کے بہترین ڈائریکٹر کونسے ہیں؟
پی ٹی وی کے کئی نامور ڈائریکٹر رھے ھیں ۔۔ جن کا اپنا
اپنا ، اسکول آف تھاٹ رھا ھے ۔۔
میری پسند کے پی ٹی وی ڈائریکٹرز میں :
شاہزادخلیل ، شعیب منصور ،
نصرت ٹھاکر ، محمد نثار حسین MNH ، اقبال انصاری ، راشد ڈار ، سلطانہ صدیقی ، ایوب خاور ، دوست محمد گشکوری ، سجاد احمد ،
طارق جمیل اور طارق معراج شامل ھیں ۔۔ !!
ان کے کام کا اگر گہرائی سے ، جائزہ لیا جائے تو ایک دوسرے سے بہت مختلف اور منفرد نظر آئیں گے .. !!
شہر کونسا پسند ہے اور کیوں؟
ھمارے سارے شہر ھمیں پیارے ھیں ۔
کراچی ، دنیا کے بڑے شہروں میں شامل شہر ھے ۔
دن رات بھاگنے بھاگ جاتی ھے ۔
لوگوں کے پاس وقت نہیں ھے ۔۔ !!
لاھور کا ، اپنا حسن ھے ، فن و ثقافت اور تہذیبی روایات کے حوالے سے اپنا الگ مقام رکھتا ھے ، باغات کا شہر بھی کہا جاتا ھے اردو ادب کا اھم مرکز
ھے !
مجھے کوئٹہ پسند ھے ۔ زندگی کا لمبا عرصہ اس شہر میں گذارا ھے ۔
تعلقات بنائے ھیں ۔
اپنائیت اور انسیت محسوس کی ھے ۔
اس شہر سے عجیب سی ، مانوسیت اور انسییت ھے ۔۔!!
کیا پی ٹی وی میں کام کرنے والے لوگ اب ادب میں دلچسپی رکھتےہیں؟
اس وقت کا تو ، اتنا زیادہ پتہ نہیں ھے کہ کیا حال ھے ،
پی ٹی وی پروڈکشن سے وابستہ لوگوں کا ۔ ویسے ھمارے ہر شعبۂ زندگی میں فال تو آیا ھے ۔۔ ھم نے 80 اور 90 والی دہائی میں ، کمال کے لوگ ، پی ٹی وی سے ، وابستہ دیکھے ۔۔ کوئی بھی شعبہ ہو ، پروڈکشن کے شعبے سے ، تعلق رکھنے والے لوگوں کا ، کیا ذکر کریں ۔۔ سوچوں کے ساگر تھے ۔۔
جن سے مل کے ، جن سے گفتگو کر کے، سوچ کے نئے زاویے ، سامنے ، آتے تھے ۔۔!!
جن کی صحبت میں ھم نے ، بہت کچھ سیکھا ۔۔ لیکن اس کے علاوہ ، ڈیزائننگ ہو ، انجینئرنگ ہو ، کیمرہ ڈپارٹمنٹ ہو ، ایڈمن ہو ، اکائونٹ ڈپارٹمنٹ ہو ، مطلب کی ٹی وی کے ، ہر شعبے میں باغ و بہار قسم کے لوگ تھے ۔۔ !!
ان شخصیتوں/کتابوں کے بارے میں کچھ ذکر کریں ، جنہوں نے آپ کی زندگی پہ گہرے نقوش چھوڑے ۔۔ ؟
کتابوں میں اتنی طاقت اور قوت ھے کہ یہ آپ کو ، فرش سے اٹھا کر ، عرش پہ پہنچا سکتے ھیں ۔
اس کے کہا جاتا ھے کہ ، مطالعہ ، ذھنی خوراک ھے ۔
روزانہ کسی اچھی کتاب جا مطالعہ نہایت ضروری ھے مختلف لکھنے والوں نے ، مختلف وجوہات واسباب کی وجہ سے اپنے اثرات چھوڑے اور پسند آئے ۔۔!!
کسی کی زندگی جدوجہد ، کسی کے سوچ کا انداز ، کسی کا اندازِ تحرير اور کسی کی مقصدیت نے زندگی کا رخ تبدیل کردیا ۔
ایسے نام تو بہت سارے ھیں لیکن ابھی جو ذھن کی اسکرین پہ آتے ھیں وہ یہ ھیں۔
ان ناموں میں کوئی ترتیب تو نہیں ہوگی ۔
ان میں سندھی سندھی ادیب بھی شامل ہوں گے ، اردو ادیب بھی اور بشمول انگریزی اور دنیا کی ، دوسری زبانوں سے ، تعلق رکھنے والے ادیبوں/ شخصیتوں کے ، نام بھی شامل ھیں ۔۔ !!
شاعروں کے کے ناموں کا تو ذکر ، آپ کے پہلے کسی ، سوال کے حوالے سے ، مجموعی طور کيا گيا ھے ۔
باقی ميری پسند کے ، افسانہ نگاروں ، بشمول دنیا کے بڑے لوگوں جنہوں نے ، مشکلاتوں کے باوجود ، بڑی استقامت ، مسلسل محنت اور سوچ کے ، اپنے ھنر سے ، زندگی اور ادب کی دنیا میں منفرد ، مقام پایا ، جس میں عرض کر چکا ہوں کہ ، سندھی ادب سے تعلق رکھنے والے ، تخلیق کاروں اور عالموں ، ادیبوں کے نام بھی ، شامل ھیں .
یہ تو ہوگا کہ ، ناموں میں ، ترتیب نہیں ہوگی ۔۔ بہرحال آتے ھیں آپ کے ، سوال کے جواب کی جانب ۔۔ ان میں شامل ھیں :
جمال ابڑو ، امرجلیل ، نسيم کهرل ، ماھتاب محبوب ، ایاز قادری ، نورالھدیٰ شاه ، قرت العین حیدر ، سعادت حسن منٹو ، عصمت چغتائی ، راجندر سنگھ بیدی ، یوسفی صاحب ، ضمير صاحب ، کرنل محمد خان ، جمیل الدین عالی ( جمیل الدین عالی صاحب کے ، حوالے سے ایک یادگار واقعہ ، ذھن میں آیا ھے ، ذکر لازمی سمجهتا ہوں ۔۔ 90 کی دہائی میں ، ہی ٹی وی کوئٹہ مرکز کی جانب سے ، 14 – اگست کے دن کی مناسبت سے ، زیارت میں ، کل پاکستان مشاعرے کے ، انتظام کئے جا چکے تھے ۔
جنرل مینیجر تھے ، مصطفیٰ مندوخيل صاحب اور پروگرام کے پروڈیوسر تھے ، سجاد احمد ۔۔ مشاعرے سے ایک دن پہلے ، تمام شعراء کرام پہنچ چکے تھے ۔
لنچ پریک میں بھی بچوں کے پروگرام کی ایڈیٹنگ جاری رکھی اور چار بجے تک فارغ ہوگیا ۔۔ کیسٹس کمرے میں رکھیں ، اب لنچ کرنے کے لئے ، ٹی وی مرکز کے ساتھ ہی واقع ، پی ٹی وی کالونی ، اپنے گهر جا رھا تھا ، سیڑھیاں اترنے ، لائونج کراس کرنےچ کے بعد جیسے ہی لائونج کی گیٹ سے ، باہر نکلا تو لانگ شاٹ میں ٹی وی مرکز کے مین گیٹ کی طرف نگاہ پڑی ، جہاں سے عالی صاحب جو ، پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے کینٹین کی طرف ، جاتے ہوئے دیکھا ، لنچ کرنا بھول گیا میرے اندر کا شاعر جاگ پڑا ۔۔
رفتار میں تیزی آگئی ، کاریڈور کراس کر کے ، عالی صاحب سے جا کے ، ہاتھ ملایا ، اپنا تعارف کروایا — بڑے پیار سے ، مسکرا کے ملے ۔۔ کینٹین میں جا کے ، دو چار بسکٹ کھائے ، چائے پی ، عالی صاحب کی گفتگو میں لطف آگیا ۔۔ کبھی کبھی ، ھم بھی گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئےکسی نہ کسی مختصر بات کا اپنے انداز سے شگوفہ چھوڑتا رھتا تھا ۔
عالی صاحب کی طبیعت بھی باغ و بہار ، ہو جاتی تھی ، فرما رھے تھے کہ منگی صاحب ، آپ سے مل کر ، بہت اچھا لگا ۔۔ پھر تو منگی قبیلے کے سردار علی حسن منگی ، ان کے بھائی گل حسن منگی ، جن کا سکھر سے تعلق تھا اور اپنا دادو سے ۔۔ اس طرح بڑے تاریخدان اور دانشور ، پیر حسام الدین راشدی اور ان کے بڑے بھائی ، پیر علی محمد راشدی اور دوسرے سندھی عالموں اور ادیبوں کے حوالے سے ، اپنے دوستانہ تعلقات کا ذکر کرنے لگے ۔۔ عالی صاحب سے ھماری یہ پہلی ملاقات تھی جو ، دو مرتبہ چائے کی پیالی اور بسکٹ پہ ، تقریبا تین گھنٹے تک جاری رھی ۔۔ 7- بجے کینٹین سے اٹھے اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔
دودن کے بعد ، پروگرام کی ویکلی ، میٹنگ کے لئے ، کانفرنس روم میں ، بیٹھے تھے ، تو جنرل مئنیجر ، مصطفیٰ مندوخيل صاحب ، 40-35 میٹنگز کے شرکا کی موجودگی میں ( جن میں ، ھیڈ آف ڈپارٹمینٹس اور پروڈیوسرس بیٹھے تھے ۔ مجھے مخاطب ہوتے ہوئے ، مذاق میں ، فرمانے لگے کہ ، عالی صاحب کو کیا کھلایا ھے ۔۔ آج روزنامہ ، "جنگ” کے ، اپنے کالم ،” نقار خانے” میں ، آپ کی بڑی تعریف کی ھے کہ ، ایسا شخص جو پہلی ملاقات میں ایسا لگا کہ جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ھیں وغیرہ وغیرہ اور بھی نہ جانے کیا ، کیا ، عنایتیں فرمائیں عالی صاحب نے ، اپنے کالم ، "نقارخانے” میں ،
میرے بارے میں ۔۔!!) اب بات کو پھر جوڑتے ھیں ناموں سے ۔۔ سراج الحق میمن ، محمد ابراھیم جویو ، ڈاکٹر الھداد بوھیو ، برٹینڈ رسل ، ایڈیسن ، آئنسٹائن ، بینجامین فرینکلن ، ایمرسن ، روز ویلٹ ، ابراھام لنکن ، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ، مولانا غلام محمد گرامی ، ولیم جیمز ، کارک گستاو جُنگ ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، کرشن چندر ، ھیمنگوے ، اوھینری ، ٹالسٹائی ، ترگنیف ، چیخوف ، موپاساں ،
دوستو وسکی ، ولیم جیمز ،
کارل گستاو جِنگ اور بہت سارے ، کس کس کا نام لوں ،
دنیا میں تو بہت سارا علم ھے ، قطرہ ، قطرہ ، سب سے حاصل کیا ھ اور کر رھیں ھیں ۔۔ لیکن بنیادی حقیقت یہ ھے کہ ، ھم نے دادو کے اپنے دوستوں سے بھی ، بہت کچھ حاصل کیا ۔۔ ھماری شخصیت کے عمارت کی بنیاد تو ، دادو کے دوستوں کی ، محفلوں ، مجلسوں سے پڑی ۔۔ جس میں سندھی ادبی سنگت
دادو (برانچ) اور سندہ گریجوئیٹس ائسوسیئیشن کے ھفتیوار میٹنگز کا اھم کردار ھے ۔۔ !
آپ کی کتنی کتابیں زیر اشاعت ہیں اور اب تک کیوں کوئی کتاب مارکیٹ میں نہ آسکی ہے؟
کچھ ناگزیر وجوہات کی سبب ، میری آج تک ایک کتاب بھی شایع نہیں ہو سکی ۔
اس دوران ، شاعری کی ، پانچ چھ نوٹ بکس بھی اوپر نیچے ہوگئیں ہیں۔۔ حالانکہ میں سندھی زبان میں تو 70 – 1969 سے اور اردو زبان میں 85-1984 سے شاعری کر رہا ہوں ۔۔ سندھ زبان میں نکلنے والے ہر نامور رسالے اور اخبار میں ، میری شاعری شائع ہوچکی ھے اور ابھی تک ہو رہی ھے ۔۔ اردو زبان میں بھی روزنامہ ، "جنگ” کوئٹہ ، ماہوار
"سنگت” کوئٹہ اور فیس بک پہ میری شاعری ، آتی رھتی ھے ۔۔ آج کل سندھی زبان کے پہلے مجموعے کلام کو ترتیب دینے کی تیاریوں میں ہوں ۔۔ جلدی ہی کتاب منظرِ عام پر آ جائے گی ۔۔
زیرِ ترتيب ميری شاعری کے کتابوں کے نام:
سندھی شاعری۔۔
1- ايندي باک باک ، بسنت جی.
( آئے گی بسنت کی سحر)
2- ڪومل جذبا – سھڻيون سوچون.
( کومل جزبے – سوھنی سوچیں)
3- باک ڀِنا رابيل.
(سحر سے بھیگے رابیل)
اردو شاعری:
1- خواب جزیرہ.
2- دھوپ کی تمازت.
ھم نے دادو کے اپنے دوستوں سے بھی بہت کچھ حاصل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھماری ادبی شخصیت کی بنیاد تو دادو کے ، دوستوں کی ، محفلوں ، مجلسوں سے ہی پڑی ، جس میں ، سندھی ادبی سنگت دادو ( برانچ ) اور سندہ گریجوئیٹس ائسوسیئیشن کی ھفتیوار میٹنگز کا اھم کردار ھے ۔۔ اس وقت ، دادو میں ، ھمارے حلقۂ احباب میں شامل تھے :
استاد بخاری ، نور گھلو ، فاروق سولنگی ، احمد خان ملکانی ، پرفیسر سلیم سولنگی ، عثمان بیخود میمن ، فتاح/شرجیل ،
ڈاکٹر شمس سومرو ، سندھو میرانی، پرفیسر عبداللہ منگسی ، گل محمد شادان سومرو ، صلاح الدین پہنور
غلام علی دادا سومرو ، ڈاکٹر چندر لال اداسی اور عطاء الرحمان میمن ۔