نومبر 5, 2024

تحریر عرفان علی


وقت کے ساتھ کشتی سازی کی صنعت جدت اختیار کرگئی ہے،،لیکن کراچی میں ماہی گیروں کی برسوں پرانی بستی ابراہیم حیدری میں آج بھی کشتی سازی کا کام وہی پرانے ڈھب سے جاری ہے۔ ایک کشتی کی تیاری میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔بڑھتی مہنگائی نے بھی کشتی سازی کی صنعت کو متاثرکیا ہے۔
یہ سنہری ہاتھ ، جن میں ہنری مندی کا خزانہ پوشیدہ ہے۔
لکڑی کو تراش خراش کر ،، اور اپنی مہارت بروئے کار لاکر کشتی کے روپ میں ڈھالتےہیں۔
نہ کشتی سازی کا کوئی جدید کارخانہ ، نہ جدید آلات اور مشینری ۔

کراچی میں ماہی گیروں کی قدیم بستی ابراہیم حیدری میں کشتی سازی کاکام وہی پرانے انداز سے جاری ہے۔

کاریگر لکڑی کے بڑے بڑے ٹکروں کو ضرورت کی مناسبت سے آرا مشین پر کاٹتے ہیں۔
پھر ان کی سطح کو ہموار بنانے کے لئے مشین سے گھسائی کی جاتی ہے ۔

کشتی کے ڈھانچے پر ایک ایک کر کے لکڑیوں کو بڑی مہارت کے ساتھ پیوسط کیا جاتا ہے۔
مضبوطی سےجوڑنےکی خاطر لکڑیوں میں سوراخ کر کے ان میں کیلیں ٹھونکیں جاتی ہیں۔

بظاہر آسان لگنے والا یہ کام انتہائی مہارت، محنت او ر مشقت کا تقاضا کرتا ہے ۔
ایک کاریگر کو کشتی سازی کے فن کا ماہر بننے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔

کاریگر کہتے ہیں بڑھتی مہنگائی کے باعث نئی کشتیاں بنوانے کا رجحان کم ہوگیا ہے۔
کشتی سازی میں زیادہ تربرماٹیک کی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔
چلغوزہ اورپین لکڑی بھی کشتیاں بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔
سب سے چھوٹی کشتی 18فٹ لمبی اور اس کی قیمت ساڑھے3سے4لاکھ روپے ہے۔
بڑے سائز کی کشتی 40فٹ لمبی اور اس کی قیمت 18سےبیس لاکھ روپے ہے۔
مشکل حالات میں ،،اس قدیم صنعت سے وابستہ افراد اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ناو سازی کا یہ قدیم فن سینہ بہ سینہ ان ہنر مند ہاتھو ں میں منتقل ہوتا آیا ہے۔اس ثقافتی خزانہ کو محفوظ بنانا ضروری ہے ،، تاکہ ان ہنرمندوں کا ذریعہ معاش بھی چلتا رہے اور ماہی گیروں کے لئے نسبتا سستی اور معیاری کشتیوں کا حصول بھی ممکن رہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے