لطیف ابراہیم ایڈووکیٹ
ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ شاہنواز کو گرفتار کرکے اپنے پاس رکھا جہاں پر شاہنواز پر بدترین ٹارچر کیا گیا۔
ایس ایس پی عمرکوٹ کا اور ملا عمر سرہندی کا پلان یہ تھا کہ سامارو میں ملا عمر سرہندی کے سامنے شاہنواز کو پیش کیا جائے وہاں ویڈیو بنائی جائے اور گستاخی کی غلطی قبول کرے اور معافی مانگے، پھر اس ہجوم اسے قتل کرے اور ایس ایس پی اپنے پلان میں کامیاب ہو۔
لیکن پولیس ذرائع کے مطابق ڈاکٹر شاہنواز نے انکار کیا اور ہر سوال کے جواب میں کہتا رہا ہے میں مرجاؤں گا لیکن کوئی جھوٹا الزام خود پر نہیں لونگا۔ جو آپ کہہ رہے ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
اچانک تشدد بڑھا، اتنا ہؤا کہ موت واقع ہوگئی، اب اگر وہیں سے لاش دیتے تو سرہندی پھنستا۔
اسے عمرکوٹ کی حدود سے باہر بھیجا گیا، تشدد اور لٹکی ہوئی گردن کو چھپانے کے لیے لاش جلانے کا پلان تھا، اس پلان میں سرھندی نے اپنے لوگ تیار کیے۔
پوائنٹ
اگر لاش جلانے کا پولیس اور عمر سرھندی کا پلان نہیں تھا تو صبح پانچ بجے ڈاکٹر شاہنواز کا والد لاش لے کر میرپور خاص سے نکلا ہے۔
لوگوں کو کیا پتہ کہ کہاں لے کر جا رہا ہے ساتھ کون کون ہے۔ اتنی صبح بوتلوں میں پیٹرول لئے لوگ پہلے سے موجود کیوں تھے، اتنی صبح صبح ایک جتھہ کیسے موجود تھا۔
لاش کو ہجوم سے بچانے کے لیے ایمبولینس سے گاڑی کی ڈگی میں ڈالا گیا تاکہ ھجوم ایمبولینس کے پیچھے نا بھاگے۔ لیکن پھر بھی لوگ پہنچے اور لاش کو کوئلہ بنا دیا گیا، لاش ایسی کہ دس سیکنڈ تک مسلسل نہیں دیکھی جا سکتی۔
دو اہم نکتے۔
انکوائری کمیٹی ذرائع مطابق گرفتاری اور انکاؤنٹر میں آٹھ گھنٹے کا فرق ہے تین گھنٹے کراچی سے میرپور خاص کے لگالو تو بقیہ پانچ گھنٹے اسے کہاں رکھا گیا اور کیوں رکھا گیا ؟
جو تصاویر وائرل ہوئیں ان میں واضح تشدد کے نشانات تھے اگر صرف گولی لگنے سے موت ہوئی تو لاش کی گردن پر نیل کیوں نظر آ رہے تھے؟
دوسرا نکتہ
اگر سندھڑی میں انکاؤنٹر ہوا ہے تو انکاؤنٹر کی جگہ پر خون کے چند قطرے کیوں ہیں۔
ایک صحت مند لمبے چوڑے جوان کو دو گولی لگی کم از کم چار لٹر خون بہا ہوگا جبکہ نہ جائے وقوعہ پر، نہ مقتول کی باڈی پر، نہ ہسپتال میں، کہیں بھی خون نہیں ہے، جب کہ ہسپتال لائی گئی باڈی ایسے لگ رہی جیسے واش کرکے لائی گئی ہو۔
ڈاکٹر شاہنواز کے ساتھ ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا، عمر سرھندی، جاوید جسکانی اور ایس ایس پی میرپور خاص نے وحشیانہ ظلم کیا ہے، اگر یہ سب بچ جائیں گے تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کریگی۔
ایک شخص جو توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس پر سنگین تشدد کیا گیا کہ وہ تسلیم کرے۔
ریاست اب اگر خاموش رہی تو تاریخ کبھی تمہیں معاف نہیں کرے گی۔