کراچی میں اسی کی دہائی سے چلنے والی ڈبلیو گیارہ کا ملک ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی چرچا ہے۔
شہری کسی اور منی بس کو جانیں نا جانیں،، اس منی بس سے ضرور واقف ہیں۔
چار سو سے زائد بسوں کا یہ ہندسہ آج سمٹ کر سو تک محدود ہو چکا ہے۔
ڈبل ہے ڈبل ہے
احسن آباد سے کیماڑی۔۔
ڈبلیو گیارہ کی سواری۔۔
سج دھج نرالی۔۔۔ رفتار جہاز والی۔۔ اور انٹرٹینمنٹ مثالی۔
ڈبلیو گیارہ کی وجہ شہرت اور انفرادیت اس کی سجاوٹ اور بسوں کی تعداد تھی۔
احسن آباد سے شفیق موڑ۔۔ شفیق موڑ سے سہراب گوٹھ ، لالو کھیت ، مزار قائد اور پھر بندر روڈ سے جامع کلاتھ اور پھر کیماڑی۔۔
ڈبلیو گیارہ کراچی میں طویل روٹس پر چلنے والی منی بسوں میں سے ایک ہے۔ جو 1978 میں فعال ہوئی۔۔
بین الاقوامی سطح پر اس منی بس کا ماڈل بھی بنایا گیا ہے۔ معروف کامیڈین سلیم آفریدی بتاتے ہیں کہ وہ بھی اسی بس میں سفر کرتے تھے۔۔ یہی ان کی وجہ شہرت بنی۔۔
ایف ایم ڈبلیو گیارہ کے المبز کا شہری بے صبری سے انتظار کیا کرتے تھے،، آڈیو کیسٹس اور سی ڈیز مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے تھے۔ 1996 سے 2007 تک مجموعی طور پر ایف ایم ڈبلیو گیارہ کے 32 البم آئے جو بے حد مقبول ہوئے۔
کراچی کی پہچان کہلانے والی ڈبلیو گیارہ کی حالت آج کافی مختلف ہے۔
شہزاد احمد چالیس سال قبل ڈبلیو گیارہ بس اڈے سے وابستہ ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی ڈرائیورز یہ پیشہ چھوڑ چکے ہیں۔ مہنگائی کے دور میں بسوں کی سجاوٹ آسان کام نہیں ہے
سرجانی میں آبادی بڑھنے سے قبل ڈبلیو گیارہ کا پہلا اسٹاپ اللہ والی چورنگی سے شروع ہوتا تھا۔ اب اس کے روٹ کا آغاز احسن آباد سے ہوتا ہے۔
سو کے قریب ان بسوں میں سجاوٹ تو دور اکثر بسوں کی حالت ابتر ہے۔ صدر کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد ارشاد بخاری اس ماضی کی حکومت میں لائی گئیں پالیسیوں کو منی بسوں کی تباہ حالی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ڈبلیو گیارہ صبح سات بجے سے رات نو بجے تک شہر کی سڑکوں پر سفر کرتی ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب رکن قومی اسمبلی عبدالوسیم نے پی آئی اے کی سروس کا موازنہ ڈبلیو گیارہ سے کیا تھا۔۔ آج صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ ٹریول پاکستان نامی ادارہ آٹھ سے بارہ ڈبلیو گیارہ کے عنوان سے خواتین کے لیے بنائے گئے سفری پروگرام کے ذریعے اس بس کی بحالی میں اپنا حصہ بھی ڈال چکا ہے۔