فروری 14, 2025


سمندر کی گہرائی سے امڈ کر ساحل کا حسن بڑھانے والی سیپیاں،، ہنر مند ہاتھوں میں جاکر گھروں میں سجنے والے خوبصورت شو پیس کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔


ساحل پر بکھری یہ سیپیاں، سمندر کا حسین تحفہ ہے۔
درحقیقت یہ کچھ آبی جانوروں کا اپنے گرد بنایا ہوا سخت حفاظتی خول ہوتا ہے۔


انسانی ہاتھ ان سیپیوں کو مختلف اشکال میں ڈھال کر ان کا حسن نکھا ر دیتے۔


ابراہیم حیدری کے ساحل پر واقع کوہلی پاڑے کے بیشترگھرانوں کاگزربسر انہی سیپیوں کی بدولت ہے۔
بستی کا مکین 16سالہ سُمت بھی ساحل سے سیپیاں جمع کرکےگھرلوٹتاہے۔


سیپیاں جن میں کیڑا موجود ہوتا ہے، انہیں چار گھنٹے تک کیمیکل میں ابالا جاتا ہے۔
ابالنے کے بعد سیپیوں کو فرش پر پھیلا دیا جاتا ہے،، تاکہ وہ خشک ہوجائیں۔

جمی بی بی کہتی ہیں
(میرالڑکاجاتاہےسمندرمیں مال نکالنےکےلیےوہ لےکرآتاہےتوہم لوگ دھوکرپکاتےہیں پھرپکانےکےبعدپھرسکاناپڑتاہےپھرسسکاکرپھرجاکربیچتےہیں۔جب تک پکاتےنہیں توکیڑانہیں نکلتاپھروہ کالامال ہوتاہےجب اس طرح پک جاتاہےتوپھرسفیدہوجاتاہے۔۔


اگلامرحلہ سیپیوں کی کارخانے منتقلی ہے، جہاں کاریگر ان پر مہارت کےرنگ بکھیرتےہیں۔
بھیماگوندکلفٹن کےگودام میں 25 سال سےسیپوں سے آرائشی اشیاء بنانے کا کام کررہا ہے۔
چھوٹی اور بڑی سیپیوں کو گلو کی مدد سے جوڑ کر مختلف دیدہ زیب شو پیس تیار کئے جاتے ہیں۔
کاریگر کہتے ہیں کہ
(ہماراکام یہ شروع سےبچپن سےہے ہماراشوق اسی میں ہےتقریبا یہ بیس پچیس سال تواس کام میں ہی گئےہیں۔ہم جویوس کرتےہیں تسبیح،پپڑی،راتڑا اورہڑی ککڑی وہ ابھی ہےنہیں ابھی ختم ہوگئی یے۔اوریہ دھلاہوامال صاف ستھراہمیں مل جاتاہےہم بیٹھ کردس پیس بنالیتےہیں بیس پیس بنالیتےہیں بناکراورسیٹھ کردےکراورمال کل تک جوہے سوکھ جاتاہے۔

کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ سےمتصل سیپیوںسے بنے شوپیس کےاسٹالزسجتےہیں۔
یہاں گھڑیاں،جیولری باکس،کلپس ،مچھلی ، اور فریمز سمیت مختلف شوپیس دستیاب ہیں۔


مختلف قسم کی سیپیاں ہوتی ہیں اس کوڈیکوریٹ کرنےکےلیےگلوکااستعمال ہوتاہےباقی سیپیاں استعمال ہوتی ہیں تقریب بیس پچیس سال ہوگئےیہ کام کررہےہیں اس میں مختلف قسم کی ورائیٹی بنتی ہیں کشتی وغیرہ ہوتی ہے،لیمپس وغیرہوتی ہےجیولری کاسامان ہوتاہےدورازے کےپردہ وغیرہوتےہیں اس طرح کی مختلف چیزیں بنتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے