
کراچی کی غیبت گلی
تحریر عمران
انسان جہاں کہیں بھی پروش پاتا ہے اس علاقےمحلے، گلی چوباروں سے انیست کا عنصر نمایاں طور پراسکی شخصیت میں نظر آتاہے۔خاص طور پر بچپن کی شراتیں، مستیاں حماقتیں یا پھر جوانی کا پاگل پن، جنون ، نادانیاں اسے زندگی بھر رہ رہ کر ستاتی ہیں بلاتی ہیں اپنا آپ یاد دلاتی ہیں۔ایسی ہی زندگی کراچی کی مختلف گلیوں میں بھی رچی بسی ہے جو اپنے نام کے ساتھ اپنے اندر ماضی کےکئی راز پنہاں رکھتی ہیں۔انہی گلیوں سےجڑےہوئے لوگوں کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں، ان کہانیوں میں ان گلیوں کا ذکر کسی خوبصورت یاد سے کم نہیں۔
کراچی ایک ایسا شہر جس کی رگ رگ میں کہانیاں بسی ہوئی ہیں کراچی کے اوراق پلٹتے ہی ماضی کے دریچوں سے آئی حال کی خوشبو فضاء کو معطر کر دیتی ہیں۔
لفظ غیبت سننے میں جس قدر نا مناسب لگتاہے ویسے ہی اس کے اثرات اور کیفیات بھی ہیں۔لیکن جب یہ لفظ غیبت گلی کہلانے لگے تو ذہن میں عجیب و غریب قسم کے سوال اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ غیبت گلی کیا ہے؟کیوں ہے؟ ،یہ نام کیسے معرض وجود میں آیا؟۔اس کے پچھےچھپے راز کو جاننے کے لیے ہم نے آئی آئی چندریگر روڈ کی طرف رخ کیا ۔
شاہین کمپلیکس سے شروع ہونے والے آئی آئی چندریگر روڈ کے بائیں جانب سے چوتھے نمبر کی گلی میں جانا ہوا جسے میڈیا کے نمائندے غیبت گلی کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
اس گلی کے وسط میں دی نیوز اور جیو ڈیجیٹل کی عمارت واقع ہے جہاں پر بیشتر تعداد میڈیا میں کام کرنے والے نمائندوں کی ہے۔ اس عمارت کے بلکل سامنے اقبال ہوٹل قائم ہے جن کا تعلق تو اصل میں کچلاک کوئٹہ بلوچستان سے ہے۔لیکن وہ عرصہ دراز سے یہی ہوٹل چلا رہے ہیں۔ اس سے اگلی گلی میں پاکستان کا سب سے بڑا نیوز پیپر اور پرائیوٹ ٹی وی چینل جیو نیوز والی گلی واقع ہے جہاں پر بیشتر صحافیوں کی چہل پہل کا سلسلہ دن سے لیکر رات گئے تک جاری رہتاہے۔ ہوٹل کے مالک محمد اشرف کہتے ہیں رات گئے تک صحافیوں کی گفتگو کا سلسلہ جاری رہتاتھا جن کو سن کر بےحد مزہ آتا تھا ۔
غبار، دبائو ، پریشر ، بوجھل پن ، غصہ، اختلاف رائے پر بیان ، تنقید، تند وتیز جملوں کا تبادلہ اس گلی میں اس وجہ سے بھی ہوتاہے کہ میڈیا ہائوس میں کام کرنے والے افراد کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات جنم لیتےہیں۔ پھر اس میں بحث وتکرار کا عنصر نمایاں طور پر ابھر کرسامنے آتاہے۔ جب وہ افراد فرصت کے لمحے میں چند گھڑیاں اس ہوٹل اور اسی گلی میں گزارتے ہیں تو وہ اپنے دل کا سارا غبار نکالتے ہیں ۔مختلف معاملات پر ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
اس گلی کے اطراف میں اخبارات اور میڈیا کے جتنے بھی دفاتر ہیں وہ باہمی اختلاف رائے رکھتے ہیں جب بھی وہ اس جگہ پر پہنچتے ہیں آپس میں وہی دفتر کی بات اختلاف رائے کا تذکرہ کرتے ہیں اس طرح کرتے کرتے اس گلی کا نام غیبت گلی کے نام سے مشہور ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس گلی کو غیبت گلی کہا اور پکارا جاتاہے جبکہ اس کا اصلی نام عارف جئے جا اسٹریٹ ہے۔
غیبت گلی، علمی ادبی اور بحث مباحثے کا مرکز
صحافی حلقوں نے اسے یہ نام کیوں دیا
گلی کو علمی گفتگو کا مرکز بھی سمجھا جاتاہے
گلی کے اطرف میں میڈیا کے دفاتر قائم ہے
جو یہاں آکر اپنا غبار نکالتے ہیں
یہاں غیبت سے مراد اختلاف رائے، بحث، دلیل کے ہیں
صحافی اور میڈیا سے وابستہ افراد بڑی تعداد میں یہاں آتے ہے
رات بھر اس ہوٹل پر شہری بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔
غیبت گلی میں پرانے نامور صحافی آیا کرتے تھے
جن میں کامران خان کا نام بھی سر فہرست ہے
آئی آئی چند ریگر روڈ واقع مجاہد بک اسٹال کے مالک راشدرحمانی گزشتہ 60 سال سے بک اسٹال چلا رہے ہیں۔یہ قدیم بک اسٹال ہے۔ راشد رحمانی کا کہناتھا کہ اس بک اسٹال کی خاص بات یہ ہےکہ یہاں جون ایلیا جیسے بڑے شاعربھی آیا کرتے تھے،اس وقت کے بڑے بڑے ادیب دانشور یہاں کا رخ کیا کرتےتھے۔ انور شعور، شکیل صاحب ، سینیٹر اشتیاق اظہر ، صلاح الدین صاحب یہاں آکر اخبار بھی خریدتے تھے یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ میرے بک اسٹال کےپاس ایک گلی ہے جسے ڈاکٹر بن موریا اسٹریٹ اس وقت کہا جاتا تھا ۔ پر وہ بعد میں چریا گلی کہلانے لگی وہاں پر اخباری حلقے سے وابستہ افراز ذیادہ تر آکر بیٹھا کرتے تھے۔اپنے تبصرے کرتے نظر آتے تھےجس طرح آجکل کے ٹالک شوز ہوا کرتے ہے۔ویسے ہی گفتگو ہوتی تھی۔ پھر اس کے بعد اس گلی کا نام غیبت گلی کے نام سے مشہور ہوا ۔پھر یہ غیبت گلی نے نام سے معروف ہوگئی ۔ یہاں ادیب دانشور بھی بیٹھا کرتے تھے جن کو لوگ سن کر استفادہ حاصل کرتھے تھے۔
دائود احمد اسٹیج اور ٹی وی ک سینئر فنکار ہے۔ان کا کہناہےکہ میرا اسٹیج سے تعلق ہے اس گلی میں کافی زمانے سے آرہاہوں ہم یہاں بیٹھ کر اسکرپٹ ڈسکس کرتے تھے۔یہاں میڈیا پرنٹ میڈیا اور ڈرامے کے لوگ یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ اور رات گئے تک یہ ہوٹل کھلی رہتی تھی۔اس گلی کو اب عارف جئے جا اسٹریٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس گلی میں اچھے شاعر اچھے اداکار اچھے فنکار کام کرنے والے یہاں بیٹھا کرتےتھے۔ اس گلی میں واقع ہوٹل کی خاص بات یہ بھی ہےکہ ہوٹل دیر تک کھلی رہتی تھی۔ غیبت کے نام سے یہ مشہور ہے یہ گلی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب خیال یا گمان تصور نہ کیاجائے اس میں بیٹھنے والے کسی خلاف سخت لہجہ یا برے الفاظ کا انتخاب کرکے ایک دوسرے کو بولاتے تھے یا پکارتے تھے۔یہاں اصلاح کی جاتی تھی معلومات ہوتی تھی یہاں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کےلوگ بیٹھتے تھے۔ اپنی باتیں کیا کرتے تھے ایک دوسرے کو مشورہ دیا کرتے تھے ۔
فنون لطیفہ سے ذیادہ تعلق رکھنے والے افراد یہاں بیٹھا کرتے تھے یہاں آرٹ کے حوالے سے لوگ بیٹھا کرتے تھے شاعر بیٹھتے بڑے بڑے لوگوں کا یہاں آنا جانا رہتا تھا۔
سینئر صحافی رئیس خان کہتے ہیں کہ یہاں ذیادہ تر صحافی بیٹھتے ہیں مل کر ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہیں چائے پیتے ہیں ریلکس ہوتے ہیں۔