جون 23, 2025

بلوچستان کی صحافی خواتین کو نہ صرف پیشہ ورانہ ترقی کی راہ میں بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ انہیں اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے موزوں اور مؤثر پلیٹ فارمز بھی دستیاب نہیں ہوتے۔ میڈیا کے شعبے میں درپیش مشکلات کے ساتھ ساتھ، ہراسانی جیسے سنگین مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی کوئی منظم اور فعال نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے کئی خواتین انصاف کی تلاش کے بجائے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
"میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو روز یہ ثابت کرنا پڑتاہے کہ انہیں کام کرنا آتاہے۔”
سعدیہ نے تھکی ہوئی آواز میں کہا
سعدیہ جہانگیر، جو پاکستان کے ایک مقامی نیوز چینل "پبلک نیوز” میں بطور بیورو چیف کام کرتی ہیں، گزشتہ 15 سال سے صحافت کے میدان میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے نہایت بہادری سے کام کرتی ہیں، لیکن اس پیشے کے ساتھ جڑے خطرات نے ان کی زندگی کو ایک مسلسل آزمائش بنا دیا ہے۔
صحافت کا چیلنج
سعدیہ کا تعلق بلوچستان سے ہے، جہاں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ سال 2024 میں ملک میں 10 سال اور زائد عمر افراد کی شرح خواندگی کی تفصیلات سینیٹ میں پیش کی گئی
پاکستان میں شرح خواندگی
صوبہ شرح
پنجاب 66.3%
سندھ 61.8%
خیبر پختونخوا 55.1%
بلوچستان 54.5%
جنس کی بنیاد پر شرح خواندگی
جنس شرح
مرد (مجموعی) 73.4%
خواتین (مجموعی) 51.9%
بلوچستان میں مرد 69.5%
بلوچستان میں خواتین 36.8%
بلوچستان میں تعلیم نسواں
زمرہ شرح
مجموعی تعلیم نسواں 18%
دیہی علاقوں میں تعلیم نسواں 2%+

"لیکن میں نے صحافت کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ میں ان لوگوں کی کہانیاں دنیا تک پہنچانا چاہتی تھی جن کی آواز ہمیشہ دب جاتی ہے،” سعدیہ نے پرعزم لہجے میں کہا۔
تاہم، اس شعبے میں قدم رکھنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ یہ سفر اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھتی تھیں۔ بم دھماکوں کی کوریج، قبائلی تنازعات، اور معاشرتی دباؤ نے کئی بار ان کے حوصلے کو آزمایا۔
خطرناک کوریج
سعدیہ نے 2019 کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا:
"ایک بم دھماکے کی کوریج کے دوران ہمیں جلدی علاقے میں پہنچنے کا کہا گیا، حالانکہ پولیس نے ابھی علاقے کو محفوظ قرار نہیں دیا تھا۔ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے، ایک اور دھماکہ ہوا۔ اس لمحے مجھے لگا کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہو سکتا ہے۔”
یہ حادثہ سعدیہ کے لیے نہایت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ وہ کئی راتوں تک سو نہ سکیں، لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ خوف ان کے عزم کو کمزور نہیں کرے گا۔
صنفی امتیاز اور ادارتی دباؤ
سعدیہ کا کہنا ہے کہ میدان میں خطرات کے علاوہ، انہیں ادارے کے اندر بھی صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
"مرد ساتھیوں کے مقابلے میں ہمیں کم تنخواہ دی جاتی ہے، اور اکثر ہماری خبریں نظر انداز کر دی جاتی ہیں،” سعدیہ نے افسوس کا اظہار کیا اور کہاکہ کہ بلوچستان کے 32 اضلاع میں صرف دو خواتین ہی بیورو چیف ہیں۔ جنرل ازم کی تاریخ میں کبھی بھی خواتین کے لیے اتنے مواقع نہ پیدا کئے گئے ہیں نہ ہی انہیں آگے آنے کا موقعہ دیاگیاہے۔
معاشرتی دباؤ بھی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
"لوگ کہتے ہیں کہ میں ایک عورت ہوں اور مجھے گھر میں رہنا چاہیے، لیکن میں ان باتوں کی پروا کیے بغیر آج بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں،” انہوں نے پرعزم لہجے میں کہا۔
خواتین کے لیے دوہرا معیار
پریس کانفرنسز اور عوامی اجتماعات میں خواتین صحافیوں کو نامناسب رویے اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتاشہ جی این این ٹی وی چینل میں کام کرتی ہیں اور کہتی ہیں:
"ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے ہم پروفیشنل نہ ہوں۔ یہ رویہ صرف عوام تک محدود نہیں بلکہ اداروں کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ایسا کام جس میں ہمیں کہا جاتاہے کہ یہ خاتون یہ نہیں کرسکے گی اسائنمنٹ کی جانب سے بعض دفعہ بیورو چیف منع کروا دیتاہے کہ اسے فلاں جگہ جانے مت دیجیئےگا اس میں مسئلہ سیفٹی کا نہیں ہوتا ہےبس ذاتی پسند اور نہ پسند کا ہوتا جس میں جینڈر آجاتاہے کچھ چیزیں بیان سے باہر ہوتی ہیں۔ جن کا ذکر کیا جائے۔۔ اس کے علاوہ دوران کوریج سستا بازار ہو یا اشیاء کی قیمتوں کا معاملہ عجیب و غریب طریقے سے لوگ ریمارکس دیتے ہیں جیسے یہ بڑی ایشوریا رائے آئی ہے ۔ اب اس کے کہنے پر قیمتیں کم ہونگی ۔ اس کے بال دیکھو ۔ روزمیڈیا والے اپنا منجن بیچنے آجاتے ہیں ہوتا کچھ نہیں ہے۔
عموما جو سیمینار یا ڈسکشن کے پروگرام ہوتے ہیں اس میں ہمیں نہیں بھیجا جاتاہے شہر سے باہر کوئی ورکشاپ یا سیمینار آجائے تب بھی ہمیں نظر انداز کیا جاتاہے وہ چانس مرد صحافیوں کو بہت آسانی سے فراہم کئے جاتےہیں۔ کام کی جگہوں پر جو اسائنمٹ لڑکی کو کرنا چاہے وہ لڑکے کو دیا جاتاہے اور جو لڑکے کو دینا چاہے وہ لڑکیوں کو دیا جاتاہے جسے بلاسٹ کے اسپاٹ پر لڑکی کا کھڑا ہونا تھوڑا مشکل ہوتاہے ۔لیکن ہمیں بھیجا جاتاہے لیکن بعد جب اس پر کریکٹر پیکج بنتا ہے تو لڑکے کو کہا جاتاہے حالانکہ اسپاٹ پر لڑکے کو ہونا چاہیے اور بعد میں جو کریکٹر پیکج بنے اس پر لڑکی کو ہوناچاہیے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں:

"معاشرے میں خواتین صحافیوں کے لیے دوہرا معیار موجود ہے۔ انہیں معمولی کوریج کے دوران بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بلوچستان میں خاتون کا گھر سے نکلنا معیوب سمجھا جاتاہے پردے کا تصور ذیادہ ہے ایسے میں بغیر پردے کے کوئی خاتون کیمرہ کے آگےبات کریں مردوں سے انکے مسائل پوچھے تو وہ بہت حیرت اور تعجیب کی نظر سے دیکھا اور سمجھا جانے لگتاہے۔ بلوچستان میں خاتوں صحافی کےلیے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہی مسائل شروع ہوجاتے ہیں وہ بعض دفعہ معاشرتی رویے ہوتےہیں بعض دفعہ آفس بے وجہ پریشر ہوتاہے کہ خاتون ہے آگے سے کچھ نہیں بولے گی تو اس طرح کے مسائل سے خاتون دو چار ہوتی رہتی ہے۔
ذہنی صحت اور پیشہ ورانہ دباؤ
نتاشہ کہتی ہیں کہ بلوچستان جیسے حساس علاقے میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ جب سارا دن امن وامان کی صورتحال کے خوف اندیشے سیکیورٹی زخمی اور بلوچستان کی مجموعی صورتحال پر بات ہوتی تو وہ ایک عجیب قسم کے ٹراما میں چلی جاتی ہے جب وہ واپس گھر لوٹتی ہےتو سب نارمل نہیں ہوتا وہ خیالات تصویریں اس کے ذہن کےدریچوں میں طواف کرتی رہتی ہے بعض دفعہ چڑ چڑا پن غصہ اور کچھ اچھا نہ لگنا کی کیفیات جنم لیتی ہیں اور بعض دفعہ کسی سنجیدہ کام کو کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا ہے۔
جی این این کی رپورٹر نتاشہ مزید کہتی ہیں کہ نے بلوچستان میں خواتین کی تعلیم کے مسائل پر کام کیا۔ ان کی رپورٹنگ نے ان علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش اور تعلیمی نظام کی خرابی کو اجاگر کیا۔ اس کے نتیجے میں، انہیں مقامی شدت پسند گروہوں کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں۔
ماہر نفسیات، پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول بولان میڈیکل کالج میں شعبہ نفسیات کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں انکے مطابق "صحافیوں کو ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے خصوصی تربیت اور مشاورت فراہم کی جانی چاہیے۔ حکومت کو ایسے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں صحافی اپنی ذہنی صحت کے مسائل کے حل کے لیے رجوع کر سکیں۔”

عطیہ اکرم، ایک اور خاتون صحافی ہے جو اے آر وائے میں رپورٹر ہیں امید کرتی ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب خواتین صحافیوں کو مکمل آزادی اور عزت دی جائے گی۔
"ہم ایک دن اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو معاشرتی اور ادارتی دباؤ سے آزاد دیکھیں گے عطیہ کہتی ہیں کے دوران کوریج لوگوں کے جو دل میں آتاہے کہہ دیتے ہیں اس وقت وہ یہ سب بھول جاتے ہیں کہ ٹی وی چینل میں بھی کام کرنے والی لڑکیاں کسی کی بہن بیٹی ہوتی ہیں بس جو منہ میں غیر مناسب الفاظ آتےہیں کہہ دیتےہیں ۔ جب کبھی بھی عید شاپنگ ، مہنگائی اور یا کوئی رش والی جگہ پر کام کرنے گئے اب یہ وزیر اعظم آگئی جو ہمارے مسئلے حل کرے گی اس طرح کے جملے سننے کو ملتےہیں
عطیہ اکرم اے آر وائے میں رپورٹر ہیں اور انہیں صحافت کرتے ہوئے 19 سال ہوچکے ہیں ۔ بلوچستان میں خواتین کی صحت کے مسائل پر رپورٹنگ کی۔ ان کی رپورٹنگ نے صحت کے مراکز کی کمی اور خواتین کے علاج میں رکاوٹوں کو اجاگر کیا۔ اس کے نتیجے میں، انہیں مقامی حکام اور دیگر عناصر کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں۔ عطیہ کو کئی بار اپنی رپورٹنگ روکنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو جاری رکھا۔
سینئر صحافی اور سابق صدر بلوچستان یونین آف جرنلسٹ شہزاد ذوالفقار کہتے ہیں کہ دیگر صوبوں نسبت بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی تعداد کم ہے لیکن جو کام کررہی ہے وہ بہت اچھا کام کررہی ہے خواتین کے موضوعات ہوں، ثقافت ہو علم ہو ادب ہو یا پھر امن وامان کی صورتحال ہو تمام موضوعات پر وہ بتہرین کام کررہی ہیں میرا خیال ہےکہ بلوچستان میں بمشکل 20 سے 22 خاتوں صحافی ہونگی اس سے ذیادہ نہیں اس میں میں سوشل میڈیا پر کام کرنے والی خواتین کو شامل کررہاہوں شہزد ذوالفقار مزید کہتےہیں کہ خواتین صحافیوں کے لیے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مسائل کو سمجھا جائے اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ صحافیوں کی تربیت، ذہنی صحت کے لیے آگاہی مہم، اور حکومتی مدد وہ اقدامات ہیں جو اس پیشے کو محفوظ اور عزت دار بنا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں خواتین صحافیوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
سعیدہ جہانگیر بیورو چیف ہونےکے باوجود انکو بھی دھمکیوں اور نتائج اچھے برآمد نہیں ہونگے کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔ خواتین کے مسائل پر رپورٹنگ کے دوران انہیں مقامی قبائل اور کی جانب سے دبائو اور دھکمیاں دی گئی ان کے گھر والوں پر بھی دبائو ڈالا گیا لیکن سعید ہ جہانگیر نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔
اقصیٰ میر بھی مختلف ٹی وی چینلز میں کام کرتی رہی ہیں انہوں نےبلوچستان میں ماحولیاتی مسائل پر رپورٹنگ کی۔ ان کی رپورٹنگ نے غیر قانونی کان کنی اور ماحولیاتی نقصان کو اجاگر کیا، جس کی وجہ سے انہیں مقامی مافیا کی جانب سے دھمکیاں ملیں جس کی وجہ سے انہیں صحافت چھوڑے دو سال بیت چکےہیں اور مزید کچھ حقائق سے کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ پردہ اٹھانا نہیں چاہتی ہیں
جنسی ہراسانی کے خلاف کمیٹیاں
"Protection against Harassment of Women at Workplace Act, 2010” کے تحت ہر میڈیا ہاؤس میں جنسی ہراسانی کے خلاف کمیٹیاں قائم ہونی چاہئیں، لیکن ان کی عدم موجودگی یا غیر مؤثر عملدرآمد خواتین کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے
. تنخواہوں اور مواقع میں عدم مساوات
سینئر صحافی عرفان سعید کے مطابق خواتین صحافیوں کو اکثر مرد صحافیوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے اور انہیں اہم بیٹس یا مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ اس کے علاوہ، ترقی کے مواقع بھی محدود ہوتے ہیں. صحافیوں کو ویج ایوارڈ کے تحت تنخواہیں دی جاتی ہیں اور خواتین اور مردوں کی یکساں تنخواہیں ہیں، قوانین موجود ہےطریقہ کار موجودہونے کے باوجود بھی اپنے من پسند اور خاص لوگوں کو اس مد میں نوازہ جاتارہاہے۔ میڈیا ہاؤسز کو جنسی ہراسانی کے خلاف کمیٹیاں قائم کرنی چاہئیں اور ان کے عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔

سینئر صحافی شہزاد ذوالفقار نے تجاویز پیش کی ہیں کہ پاکستان میں خواتین صحافیوں کو مساوی حقوق، تنخواہوں اور محفوظ کام کے ماحول کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ میڈیا ہاؤسز میں ویج ایوارڈ کے اصولوں پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوتا، اور خواتین کو اکثر غیر مساوی تنخواہوں، محدود ترقیاتی مواقع، اور اہم بیٹس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ہراسانی، خاص طور پر آن لائن، ایک بڑا چیلنج ہے، جس کے خلاف سخت پالیسیاں اور مؤثر قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے 2010 کا "Protection Against Harassment of Women at Workplace Act” اور 2002 کا "Press Council of Pakistan Ordinance” جیسے قوانین موجود ہیں، مگر ان کے مؤثر عملدرآمد میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔

ان مسائل کے حل کے لیے خواتین صحافیوں کی پیشہ ورانہ ترقی کو فروغ دینے کے لیے ورکشاپس اور تربیتی پروگرامز منعقد کیے جائیں، میڈیا اداروں میں جنسی ہراسانی کے خلاف کمیٹیاں قائم کی جائیں، اور آن لائن ہراسانی کے خلاف خصوصی ڈیسک کا قیام کیا جائے۔ مزید قانون سازی اور سخت اقدامات سے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ خواتین صحافیوں کی آواز کو مضبوط بنانے اور انہیں مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے میڈیا ہاؤسز کو شفافیت، مساوی مواقع، اور قانون کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے