ابھی تو رت بدلی ہے، کیاریوں میں رنگ برنگی پھول کھلے ہیں ۔
انکی خوشبو نے ہم سب کو یکجا کیا اور ہمیں سمجھایا انسان اہم ہے ، رشتے اہم ہے، محبت عاجزی انکساری اہم ہے۔ ہم سب انسان ہے ہمارے خواب الگ ہوسکتے ہیں ، آرزو ، خواہش الگ ہوسکتی ہیں نظریات زندگی کو دیکھنے زاویے اور رخ الگ ہوسکتے ہیں لیکن وہ فضاء وہ ماحول جس میں ہم سانس لیتے ہیں اسے آزاد رہنا ہے، جس میں سب کو برابری آزادی اور اپنی پسند اور نہ پسند کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے، ہم شدت پسند نہیں ، ہم انتہا پسند نہیں ہم رجعت پسند نہیں ہم ظالم نہیں ، ہم امن پسند ہے ،
شاہ عبدالطیف بھٹائی کے اشعار کی ہر سطر دل میں اترتی ہے جو اعلیٰ اور معتبر ہے، شیخ ایاز کے لکھے گیت آج بھی ہوائوں میں رقص کرتےہیں سندھ کی کہانی بیان کرتےہیں ۔
استاد بخاری کی وطن سے محبت اور عام آدمی کا تذکرہ اب بھی زبان زد عام ہے یا تنویر عباسی کی شاعری کا لہجہ پوری سندھ کا لہجہ ہےاس میں سراج میمن کے ناول کے کرداروں کے طرح یہاں بسنے والے لوگ ہمیشہ اپنی اجرت ہمت اور وطن دوستی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
ابھی عابدہ پروین کی آواز کا جادو انکی زبانوں دلوں اور روشن خیالی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کا تسلسل صوفی سیف سمیجو ہے جو نوجوان موسیقی کے فن سے محبت کرتاہے سب کو اکھٹا کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔
ابھی رومیسہ جامی ، سندھو نواز گھانگھرو،ماروی اعوان جیسی لڑکیوں کے سینے میں سندھ دل بن کر دھڑک رہاہے۔
ابھی تو محبتوں کی کہانیاں بے تاب ہیں ، ابھی تو وہ خواب تکمیل کے راستوں میں ہیں جس کے لیے ان پر لاٹھیاں برسائی گئی ہیں انہیں ظالموں کی طرح سڑکوں پر گھسیٹا گیا ہے ،
ابھی درد اور امید کا رشتہ ٹوٹا نہیں ۔جہاں ظلم لاچاری ہے بے بسی ہے لاقانونیت ہے محرومی ہے مایوسی ہے ایسے میں سندھ رواداری مارچ تازہ ہواکا جھونکا ہے،
جس نے سندھ کا مکمل موسم بدل دیا ہے لوگ نئے رخ ، زاویوں سے اور پہلوئوں سے چیزوں کو تنقیدی اور علم کی بنیاد پر پرکھ رہے ہیں۔
سمجھ رہے ہیں بات کررہے ہیں صیحیح اور غلط کےدرمیان جو فاصلہ ابھی تو عبور ہونے کو ہے ابھی تو اس سندھ کی بنیاد رکھی جارہی ہے جس میں ہر انسان کو محبت اپنائیت اور رواداری کے ساتھ ساتھ رہنے کاحق حاصل ہے جو اس کی تاریخ رہی ہے ۔
دنیا سمیت پورے پاکستان میں اب یہ نئی بحث چھڑ رہی ہے سیکیولر ازم ، آزاد سوچ ، انسان کو انسان تسلیم کرنے کی ، محبت رواداری اور ایک دوسری کو عزت دینےکے جذبے فروغ پارہے ہیں۔
لوگ بڑھ چڑھ کر اس مباحثے میں حصہ لے رہے ہیں۔ جسموں پر لگی چوٹ ختم ہوجاتی ہے لیکن روح پر لگے زخموں کے نشان ہمیشہ قائم رہتے ہیں سندھ کی یہ نئی نسل انتہا پسندی کے زخموں کے نشان مٹانے چلی ہے ۔