اکتوبر 14, 2025

حیدرآباد:
سندھی زبان کے بااختیار ادارے کی جانب سے ایوارڈ تقریب، سندھی

الف بے میوزیم اور کھلے اسٹیج کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔

تقریب کے مہمانِ خاص تعلیم و معدنیات کے صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ تھے۔صدارتی خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے کہا کہ وزارتیں، عہدے اور منصب انسان کے لیے ذمہ داریاں ہوتے ہیں اور انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت اور فہم کے مطابق اپنی ذمے داریاں نبھائے۔ فرض شناسی کوئی اضافی خوبی نہیں بلکہ ایک بنیادی ذمے داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 12 ہزار سے زائد رجسٹرڈ نجی اسکولوں میں

سندھی پڑھانے کے لیے ہزاروں قابل اساتذہ کی ضرورت ہے، جہاں 40 سے 45 لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن اتنی تعداد میں اساتذہ دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے۔ جب ہم اسکولوں سے باز پرس کریں گے تو یہی اصل میں عملی محبت کا اظہار ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ موئن جو دڑو کی زبان کے رسم الخط کو سمجھنے میں مسائل ہیں، ہمیں اس زبان کا کوئی بڑا جملہ یا عبارت نہیں مل سکی۔ بھارت خصوصاً تامل ماہر تحقیق یہاں نہیں آ سکتے، جس کی وجہ سے انڈس اسکرپٹ کو سمجھنے میں مشکلات ہیں۔ جہاں کہیں بھی سندھ کی تہذیب کے آثار ہیں وہاں مزید کھدائی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے روزگار کا ذریعہ نہیں ہوتے، دنیا بھر میں آؤٹ

سورسنگ کے تحت کام ہو رہا ہے، لیکن ہمارے یہاں اداروں میں غیر ضروری بھرتیاں کر کے انہیں روزگار کا ذریعہ بنایا گیا ہے، جس سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔ اگر سندھی زبان کے ادارے کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ تحریری طور پر دی جائے تاکہ اسے پورا کیا جا سکے۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر سردار علی شاہ نے کہا کہ اگر ہمیں سندھی زبان کو بچانا ہے تو دو اہم کام کرنے ہوں گے، سندھی زبان کے قدیم رسم الخط کی بحالی اور زبان کے فروغ کے لیے کام۔زبان کو میڈیا کی اسکرین پر لا کر ہی بچایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ کالج کالی موری کے حوالے سے میں نے

اسمبلی میں بھی بات کی ہے، کالج بند نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے کالج پورٹل پر داخلے بھی اوپن کروائے ہیں۔صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے مزید کہا کہ مالی مسائل کی وجہ سے کوہِسار میں یونیورسٹی قائم نہیں ہو سکی۔ ادارے خود بخود نہیں چلتے بلکہ معاشرہ اور لوگ اداروں کو چلاتے ہیں۔اگر ڈیڑھ لاکھ اساتذہ کو سی پی ٹی ٹریننگ دی جائے تو یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ قابل سندھی اساتذہ لڑکے اور لڑکیاں میرے پاس آئیں، میں نجی اسکولوں کو پابند کروں گا کہ وہ انہیں نوکریاں دیں۔ رجسٹرڈ اسکولوں کی تعداد 12 ہزار 500 ہے۔
آپ مجھے سندھی پڑھانے والے 12 ہزار 500 اساتذہ دیں، انہیں روزگار دینا میری ذمے داری ہے۔سندھی تو میں بھی بول سکتا ہوں، لیکن پڑھا نہیں سکتا،

اس کے لیے تدریسی مہارت (ٹیچنگ میتھڈالوجی) چاہیے۔ اسی لیے

میں نے سندھی لینگویج اتھارٹی کو سندھی اساتذہ تیار کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ڈاکٹر اسحاق سمیجو نے اپنے دور میں بہترین کام کیے۔ اردو بولنے والوں کو اجرک سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن کچھ سیاستدان اس پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ سندھی زبان کے بااختیار ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر اسحاق سمیجو نے کہا کہ زبان کے حوالے سے ہزاروں کام ہو سکتے ہیں، لیکن ان تمام کاموں کو بنیادی مقصد سے جوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم میں نے اپنے تین سالہ دور میں کوشش کی کہ ادارے اور زبان کے مقصد کو سماج اور عوام کے ساتھ جوڑا جائے کیونکہ زبان کا کام صرف دفتر میں بیٹھ کر علمی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے معاشرے سے جڑنا بھی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم و تدریس کے حوالے سے اساتذہ کے لیے سندھی زبان سکھانے کے مراکز قائم کیے گئے۔ کراچی کے تربیتی مرکز میں کراچی کے بڑے اسکولوں کے اساتذہ نے سندھی زبان کی تربیت حاصل کی اور اب وہ کامیابی سے سندھی پڑھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان تربیتی مراکز کو ضلعی سطح تک لے جایا جائے گا، جس کے لیے محکمہ تعلیم کا تعاون درکار ہوگا۔ ان مراکز کو باقاعدگی سے چلانے کے لیے ایک اینڈوومنٹ فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم معاشرے میں تحقیق اور زبان کے معیار کو بہتر بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

اسی مقصد کے تحت ٹیکنالوجی میں زبان کے انضمام پر ایوارڈز دیے

جا رہے ہیں، جو صرف سندھی زبان میں پاکستان بھر میں دیے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان محققین اور لکھاریوں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بچوں کے لیے شاہ لطیف کے میلوں کا آغاز کیا گیا ہے، جن کے ذریعے بچوں کو شاہ لطیف سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے