
مورو میں احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے عرفان لغاری زندگی کی جنگ ہار گئے۔ پولیس نے ان کی لاش سخت پہرے میں مورو منتقل کی، جہاں سے اسے گاؤں ماڑی کچے کے علاقے لغاری بجارا نی لے جایا گیا، مگر ورثاء نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
ورثاء کا کہنا ہے کہ کچھ شخصیات شہید عرفان لغاری کے تعزیتی مقام پر آئی ہیں اور وہ لاش وصول کرنے کی درخواست کر رہی ہیں۔ تاہم، ان کا مطالبہ ہے کہ درج کیے گئے مقدمات ختم کیے جائیں، گرفتار شدہ افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے، اور جو بھی ورثاء کے طور پر آگے آئیں، وہی لاش وصول کریں۔
مزید یہ کہ، جن افراد کو لغاری برادری دو نوجوانوں کے قتل میں ملوث قرار دے رہی ہے، ان کے خلاف قانونی کارروائی وکیل کے ذریعے شروع کی جائے۔ ہمیں ایف آئی آر کی کاپی دی جائے، تب ہم لاش وصول کریں گے، ورنہ نہیں۔ لاش چاہے پولیس کے پاس رہے یا واپس حیدرآباد لے جائی جائے، ہم خود اسے وصول کر کے احتجاج کریں گے اور لاش رکھ کر دھرنا دیں گے۔
زاہد لغاری کی شہادت اور لاش زبردستی قبضے میں لینے کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ حیدرآباد میں قوم پرست کارکنوں نے قاسم آباد بائی پاس پر دھرنا دے کر سڑک بلاک کر دی۔ دادو میں مختلف قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں، کارکنوں اور طلبہ نے دادو بائی پاس پر احتجاج کیا اور ٹریفک معطل کر دی۔ رات دیر گئے پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور کئی افراد کو گرفتار کر لیا۔
سن، میہڑ، ٹنڈو محمد خان، راہدن، ٹھٹھہ اور نصیر آباد میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جہاں قوم پرست کارکنوں نے سڑکیں بلاک کر کے پولیس کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ گرفتار شدہ افراد کو رہا کیا جائے اور قتل میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔