
ملک میں سالانہ پیدا ہونے والے پچاس لاکھ بچوں میں سے پچیس لاکھ بچے پیدائش کے وقت ہی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے فیملی پلاننگ کےلئےمردوں اورخواتین میں یکساں آگاہی ضروری ہے۔
پاکستان میں سالانہ 25 لاکھ بچےمکمل صحت یاب نہ ہونےپرپیدائش کےوقت ہی اموات کا شکارہوجاتےہیں۔۔
آئی بی اےکراچی میں 25ویں سالانہ پاپولیشن کانفرنس کے ووران ملک میں بچوں کی صحت،جسمانی کمزروی اورقوت مدافعت میں کمی جیسےمسائل پر گفتگو ہوئی۔
چیف ایگزیکٹو ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیولپمنٹ، ہینڈز کا کہنا تھا کہ ملک میں پیداہونے والےبچوں اوران کی ماں کی تفصیلات کا ڈیٹا پرائیوٹ اورپبلک آرگنائزیشن سےمنسلک ہونا چاہئیے-
ڈاکٹرشیخ تنویر، چیف ایگزیکٹو ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیلولپمنٹ ،ہینڈز (ہم 25 کروڑ کی ابادی تقریبا بن گئے ہیں اور ہماری یہاں ہر سال تقریبا 50 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں اور 50 لاکھ میں سے پیدا ہونے میں 20 لاکھ عورتیں جو ہے اپنے بچے ضائع کراتی ہیں انڈیوس اپورچن جس کو کہتے ہیں، جسے ان کی بات بھی ہو جاتی ہے اور بچے بھی ضائع ہو جاتے ہیں )
مقررین نے کہا کہ ماں اوربچےکی صحت بہترہونےکےساتھ بچے کی بہترنشوونما کےلئےبچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ ضروری ہے۔
ڈاکٹرنوید بھٹو،ٹیکنیکل ایڈوائز، میٹرنل اینڈ چائلڈ ہیلتھ کہتے ہیز کہ (ٓ ایت میں بھی یہ لکھا ہوا ہے 233 آیت میں کہ مائیں اپنے بچے کو دو سال تک دودھ پلائیں تو اس کا مطلب ہے نیچرل فیمیل پلاننگ بھی ہے یعنی تین سال کا وقف ائے گا تین سال کا وقفہ کا یہ مطلب ہے کہ ماں جب اپنی وہ صحت اور بچے کی صحت کی بات کر رہے ہوں گے تو ایک نیچرل فیملی پلاننگ ہو رہا ہوگا)
ماں بچےکی صحت سےمتعلق مقامی سطح پرکام کرنےوالی تنظیم کی سربراہ کا کہناتھا کہ اب شہریوں کےمزاج میں نرمی آرہی ہے ،،اور وہ اب ڈیٹا اورتفصیلات شیئر کررہےہیں۔
کنزہ فاروق، سینئرپروڈکٹ اینالسٹ وائٹل پاکستان ٹرسٹ کہتی ہیں کہ (ہمارے ڈسٹر سسٹمز کیسے چل سکتے ہیں ا کیسے چل رہے ہیں کیسے چلنے چاہیے اس کے سارے اس سے ریلیٹڈ ہمارے پاس سارے جو فیکٹرز ہوتے ہیں جو ہمارے ہم کو کنسیڈر کرنے چاہیے )
ماہرین کا کہنا تھاکہ ہنگامی بنیادوں پران مسائل کےحل کیلئےمشرکہ کوششوں سے ماں اوربچےکی صحت کوبہتربنایا جاسکتا ہے۔