مارچ 16, 2025


کراچی کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں انگریز دور حکومت میں تعمیرات کے حوالے سے بہت کام کیا گیا ۔۔

شہر میں 18 ویں اور 19 ویں صدی میں برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے کئی گھنٹہ گھر آج بھی موجود ہیں، جو طرز تعمیر کے علاوہ شان و شوکت کے بھی عکاس تھے ۔


کبھی کراچی کے مکین اپنے روز مرہ کاموں کے اوقات کار کے تعین کے لئے ، اس آواز پر انحصار کیا کرتے تھے۔


بات انگریز دور کی ہورہی ہے، جب عام آدمی کی کلائی پر بندھی گھڑی ہوتی تھی نا وقت دیکھنے کا کوئی دوسرا ذریعہ۔



اسی پس منظر میں برطانوی حکومت نے کیماڑی سے لیاری اور ایم اے جناح روڈ سے صدر تک کئی مصروف اور تجارتی مقامات پر ایسے گھنٹہ گھر تعمیر کروائے ۔

۔اُس وقت شہر کا پھیلاؤ کم تھا اور سڑکوں پر ٹریفک بھی محدود

تھا۔ ہر پندرہ منٹ بعد اور ایک گھنٹہ مکمل ہونے پر گھڑیال کی آواز دو ر دور تک سنائی دیتی تھی۔


اولڈ کراچی کہلائے جانے والے علاقے میں کئی کلاک ٹاورز تھے اور ان کی تعمیر کا مقصد وقت کی قدر کا احساس پیدا کرنا تھا۔


یہ جو زیادہ تر گھنٹہ گھر ہیں اور کلاک ٹاورز ہیں یہ ایم اے جناح

روڈ پر ہیں اور بندر روڈ پر ہے کیوں کہ یہ سڑک بندرگاہ کو جاتی ہے

تو وہ لوگ گھنٹی گھر بناتے ہی ایسی جگہوں پر تھے جہاں پر زیادہ لوگ ہوتے تھے صرف مارکیٹس میں ہی نہیں بلکہ کراؤڈڈ اسپیسیز پر ہوتی اور وہ اونچی بلڈنگز پر ہی بناتے تاکہ گھڑیاں دور سے نظر آئیں اور اگر وہ نظر میں نہیں ہیں تو وہ اس کے گھنٹے سن بھی سکتے ہیں


لیکن ان قدیم گھنٹہ گھروں میں لگی گھڑی کا مکینزم اتنا سادہ نہیں۔ ٹاور کے اندر مشینری کا ایک گورگھ دھندا نظرآتا ہے۔

جھولتا پنڈولم، ہر گزرتے سکینڈ پر گراگری کا گھومنا ۔۔۔ مقررہ وقت پر ہتھوڑے کا گھنٹے پر برسنا

پچپن سالہ گھڑی ساز سلیم زبیری ،،، کے ایم سی ہیڈ آفس کے واحد فعال گھنٹہ گھر کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔۔ ان کے دن آغاز ۔۔ گھنٹہ گھر کی سو سالہ قدیم گھڑی میں چابی بھرنے سے ہوتا ہے
(چابی بھرنے کی نیٹ ساؤنڈ



سلیم زبیری بتاتے ہیں کہ گھڑی کی مشینری کو فعال رکھنا کسی چیلنچ سے کم نہیں ۔

یہ جو اصل میں گھڑی ہے وہ کنگ جارج کے سلور جوبلی پر 1935 میں فٹ کی گئی تھی اور یہ میڈ ان انگلینڈ ہے یہ اس وقت انڈیا میں کمپنی سودیش کمپنی تھی جنہوں نے وہاں انگلینڈ سے اسے امپورٹ کر کے اور یہاں پاکستان میں سمبل کر کے یہاں کے ایم سی ہیڈ آفس میں فٹ کی گئی تھی اس کے تقریبا چار ڈائل ہیں جن کی جو بڑی والی اس پر سائز چھ فٹ کا ہے اور اس میں جو نیچے تقریبا کوارٹر خانے میں پانچ بیل لگی ہوئی ہیں اور ایک آوارلی گھنٹہ لگا ہوا ہے اور جو یہ مشین ہے 100 پرسنٹ جینن کوالٹی میں جینین کمپلیٹ موجود ہے اور بہت بہترین کنڈیشن میں چل رہی ہے
میری ویدر ٹاور ، لی مارکیٹ اور ایمپریس مارکیٹ میں نصب گھڑیوں کی مشینری دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث تباہ ہو گئی ، گھنٹے چوری ہو گئے یوں یہ کلاک ٹاور غیر فعال ہوگئے



ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے گھنٹہ گھر شہر کا وہ تقافتی ورثہ ہے جو شعور سے زیادہ مالی وسائل کی قلت کے باعث تباہ ہو گئے ۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے