لندن/حیدرآباد ورلڈ سندھی کانگریس کی جانب سے ویسٹ منسٹر یونیورسٹی، ہیرو کیمپس لندن میں 26 ویں بین الاقوامی سندھ کانفرنس منعقد کی گئی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی تحریک کے مرکزی رہنما لال جروار نے کہا کہ ورلڈ سندھی کانگریس نے سندھ کے اہم مسائل پر کانفرنس منعقد کی ہے جس کے لیے ورلڈ سندھی کانگریس کی قیادت لائقِ تحسین ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے ڈیم اور کینال بنا کر دریائے سندھ کے پانی پر ڈاکے ڈال کر دریا کا قتل کیا جا رہا ہے، دریائے سندھ کا قتل سندھی عوام کی نسل کشی کے مترادف ہے۔ دریائے سندھ کا قتل سندھ پر ایٹم بم کے حملے سے زیادہ خطرناک ہے۔ سامراجی قوتیں دریائے سندھ کے بہاؤ کو روک کر سندھی قوم کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تعاون سے ارسا ایکٹ میں ترمیم کر کے دریائے سندھ غیر ملکی سرمایہ داروں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی جنرل ایوب نے سندھ کے تین دریا فروخت کیے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ سندھ کے دریا فروخت کرنے کے اختیارات جنرل کو کس نے دیے؟ سندھ کے عوام اپنے دریا کے تحفظ کے لیے پرامن جدوجہد کا دائرہ وسیع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ ایک بار قتل ہو گیا تو وہ واپس نہیں آئے گا، ہمیں دریا کو بچانے کے لیے بھرپور جدوجہد کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سچل، سامی اور شاہ لطیف کی سندھ دھرتی نے ہمیشہ انتہا پسندی کو رد کیا ہے۔ انتہا پسندوں کی سرکاری سرپرستی کے باوجود سندھ کے عوام نے انتہا پسندی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔
سندھی ادبی بورڈ کا موئن جو دڑو کے بیل والا تاریخی لوگو تبدیل کر کے پیپلز پارٹی نے سندھ میں انتہا پسندی کا ناسور پیدا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل ضیاء، ایوب اور مشرف سے بھی زیادہ سندھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ پیپلز پارٹی اقتدار کی لالچ میں سندھ کو غیر ملکیوں کے حوالے کر کے چنیسر والا کردار ادا کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے تعاون سے سندھ پر متعدد حملے کیے گئے ہیں۔ ایک طرف دریائے سندھ کا قتل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضے کیے جا رہے ہیں، سندھ کے لوگوں کو ان کی آبائی گھروں سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھیوں سے سندھ چھینی جا رہی ہے۔ سندھیوں کی پرامن جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک طرف ڈاکوؤں کو پروان چڑھایا گیا ہے، تو دوسری جانب انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ شمالی سندھ میں ڈاکوؤں کی بادشاہی قائم ہے، صحافی قتل ہو رہے ہیں، قاتلوں کو پولیس گرفتار نہیں کر رہی، سندھ پولیس مکمل طور پر ڈاکوؤں اور قاتلوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ معصوم بچوں، عورتوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کرنے والے وحشی ڈاکوؤں کو سندھ حکومت زمین دینے کا اعلان کر رہی ہے۔ افغانستان سے نیٹو کے ہتھیار اسمگل کر کے سرکاری سرپرستی میں ڈاکوؤں تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ ڈاکوؤں کو مکمل طور پر حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کی صورتحال انتہائی خراب ہے، تمام سندھ دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ ایس آئی ایف سی کی صورت میں پاکستان میں غیر اعلانیہ ون یونٹ نافذ ہے۔ جنرل ایوب کے ون یونٹ کو دفن کر کے قائد اعظم محمد علی جناح کے جمہوری اور سیکولر اصولوں پر مبنی پاکستان کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی بنیاد 1940 کی تاریخی قرارداد پر رکھی گئی تھی۔ 1940 کی قرارداد میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ صوبے آزاد اور خودمختار ہوں گے۔ تمام صوبوں کا وفاق میں برابر کا حصہ ہوگا۔ سندھ کے وسائل سندھیوں کے اختیار میں ہوں گے، کوئی بھی قوم کسی دوسری قوم کے وسائل کی لوٹ مار نہیں کرے گی، سندھ میں سندھیوں کی حق حکمرانی ہوگی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد 1940 کی قرارداد اور محمد علی جناح کے جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر ملک میں ون یونٹ نافذ کیا گیا اور سندھ سمیت تمام مظلوم قوموں کو غلام بنا دیا گیا۔ سندھ کی زمینیں مال غنیمت کے طور پر غیر مقامی افراد کو دی گئیں، جو سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ بڑی منصوبہ بندی کے تحت ہمارے وسائل پر قبضہ کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں رہنے والے سندھی متحد اور منظم ہو کر دریائے سندھ کی تہذیب کو مٹانے کی سازش کرنے والی سامراجی قوتوں کے خلاف پرامن جمہوری جدوجہد کریں۔