دادا اور نانا ابو کے ہاتھوں میں ایک ڈبہ ، اس سے گونجتی جگ جگ کی کہانیاں ۔۔ ذکر ہورہا ہےماضی میں ابلاغ کے مقبول ترین ذریعہ ریڈیو کا ۔۔۔ کراچی میں ریڈیو کی صدا،، ایم اے جناح روڈ پر تین ایکڑ رقبے پر بنی عمارت سے نشر ہوتی اور ہم تک پہنچتی تھی۔ریڈیو پاکستان کراچی کی اس عمارت کو دوہزار دو میں لگنے والی آگ نے کھنڈر بنادیا۔
کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر تین ایکٹر کے رقبے پرقائم ریڈیو پاکستان کی خوبصورت و تاریخی عمارت سے یہ صدائیں ہماری سماعتوں تک پہنچتی تھیں
اس عمارت کی تعمیر انیس سو چالیس میں کراچی کی مقامی حکومت نے شروع کی ، اورتشکیل پاکستان کے بعد انیس سو اڑتالیس میں یہاں ریڈیو پاکستان کا اسٹیشن قائم ہوا اور انیس سو پچاس میں دھائی میں اس عمارت کو وفاقی حکومت نے خرید لیا
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے اس عمارت کا تعمیراتی کام فنڈز کی کمی کے باعث روک دیا گیا تھا۔ یوں اس عمارت کے بائیں مینار کا گنبد تعمیر نہ ہو سکا
ادھورے مینار کے ڈرون اور کیمرہ شاٹس
ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر تسلیم لانگھا بتاتے ہیں کہ اس عمارت میں کئی بڑے اسٹیڈیو تھے جہاں دن کئی طرح کے پروگرام ریکارڈ کئے جاتے تھے ۔۔
تسلیم لانگھا ، سابق کنٹرولر ، ریڈیو پاکستان کراچی کہتے ہیں کہ
تین چار سو لوگ تو کام کیا کرتے تھے ، تیرہ چودہ اسٹیڈیو ہوا کرتے تھے ، براڈ کاسٹ اسڈیڈیو الگ ہوا کرتے تھے ، ٹاک شو کا اسٹیڈیو الگ ہوا کرتا تھا ، میوزک کا اسٹیڈیو الگ ہوا کرتا تھا ، ڈرامے کا اسٹیڈیو الگ ہوا کرتا تھا ، ملطل یہ ہے جو ایڈیڈنگ ہوا کرتی تھی آج کل تو کمپوٹر نے بڑی آسانی کردی ہے اس زمانے میں جو اسکول ٹیپ ہوا کرتے تھے ہم نے تو اسکول ٹیپ پر بھی کی گئی ہے
تسلیم لانگھا کا کہنا ہے کہ ریڈیو پاکستان کے مشہور زمانہ پروگرام بزم طلبہ سے کئی بڑے نامور شخصیات نے اپنے کیریئر کا اغاز کیا۔
تسلیم لانگھا ، سابق کنٹرولر ، ریڈیو پاکستان کراچی نے کہاکہ
سیکٹیز میں ہمارا پروگرام جو بزم طلبہ کے نام سے شروع ہوا تھا اس نے اپنے وقت میں انتہائی مقبولیت حاصل کی اور روزآنہ نشر ہوا کرتا تھا اور اس پروگرام سے بڑے بڑے نام نکلے
سن دو ہزار دو میں ریڈیو پاکستان کی عمارت میں آگ لگی جس نے لکڑی سے بنے سارے اسٹوڈیوز کو جلا کر راکھ میں بدل دیا ۔ ریڈیو پاکستان کراچی کا عملہ حسن اسکوائر کے قریب واقع عمارت میں منتقل کر دیا گیا،، یوں یہ عمارت اجڑ گئی۔
ریڈیو پاکستان کی مینجر پروگرامنگ میمونہ شمیل کہتی ہیں ریڈیو پاکستان کراچی کی تاریخی عمارت کی رونق بحال کرنے کے لئے کئی منصوبے زیر غور ہیں
میمونہ شمیل ، مینجر پروگرامنگ ریڈیو پاکستان
ہماری کوشش یہ ہے کہ پروگرام تو ہوں گے ریڈیو کے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ایک ایسا مرکز بنایا جائے جو شہر کی ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہو اور ریڈیو پاکستان کی ایک رچ ہسٹری ہے اسے بھی کسی نہ کسی طرح سے سامنے لایا جائے ۔۔ تو ہمارا ارادہ یہ ہے کہ یہاں پر ایک میوزیم ہو یہاں پر ہم پرفارمنگ آرٹس کا تھیٹر بھی ہو ، یہاں ایونٹ مینجمنٹ سے منسلک بھی سلسلہ یہاں شروع ہو ۔۔ یہ وہ پلان ہیں جو انشاء اللہ جلد مکمل ہوں گے
ریڈیو پاکستان کے ملازمین بتاتے ہیں کہ عمارت میں اونچی آواز میں بات کرنا منع تھا اس لئے ملازمین اور فن کار صحن میں موجود پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھک سجایا کرتے تھے۔ عمارٹ اجڑی گئی ، فنکار وقت کی دھول میں کہیں کھو گئے لیکن پیپل کا درخت اور اس کی چھاؤں آج بھی موجود ہے
ریڈیو پاکستان کی یہ تاریخی عمارت اپنے اندر ایک تاریخ سموئےہوئے ہے۔ کئی نامور صدا کاروں اور فن کاروں نے اپنے فنی سفر کا آغاز اسی عمارت سے شروع کیا ۔ ہوا کے دوش پر کئی نامور صداکاروں ادیبوں اور دانشوروں نے علمی خزانہ عوام تک پہنچایا ۔۔اب یہ سفر مدھم پڑگیا ہے لیکن یہ سفر تاریخ ہمیشہ جھلملاتا رہے گا۔