
کراچی میں واقع بوتل گلی ماضی کے مقابلے آج یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ شیشے کی نادر و نایاب بوتلوں کا خزانہ اس گلی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ لیکن آج گلی میں شیشے کی بوتلوں کی جگہ پلاسٹک نے لے لی ہے۔

گرد سے اٹی۔۔ شیشے کی چند نادر و نایاب بوتلیں۔۔ کراچی میں واقع بوتل گلی کا کُل اثاثہ ہیں۔۔

ایم اے جناح روڈ پر بلدیہ عظمی کراچی کی عمارت کے سامنے واقع بوتل گلی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
گلی کا ایک حصہ شاہراہ لیاقت پر پاکستان چوک سے بھی جڑتا ہے۔

عبدالرزاق کے والد ہارون دادا نے ساٹھ سال قبل جو کام شروع کیا تھا آج ان کی دوسری پیڑھی اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔

ماضی میں اس گلی کو پارسی گلی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔۔ عبدالرزاق دادا 1970 میں اس کاروبار سے وابستہ ہوئے۔ ان کے سامنے محض پندرہ سال بعد ہی شیشے سے پلاسٹک کی بوتلوں کا سفر شروع ہوگیا۔۔
گلی میں شیشے کی بوتلوں کا کاروبار کرنے والی دکانوں کی تعداد چھ کے قریب رہ گئی ہے۔ ان دکانوں میں شیشے کی نایاب فیڈر سے لیکر جوتے کے ڈیزائن کے گلاس اور بلی کی اشکال والی بوتلیں بھی موجود ہیں۔
کچھ بوتلوں کو دیکھ کر طلسماتی کہانیوں میں بیان کی گئیں بوتلوں کا گمان ہوتا ہے۔
چند بوتلوں کے فروخت نا کرنے کی وجہ ان کا نایاب ہونا بھی ہے۔ یہاں ایسی بوتلیں بھی ہیں جو آنے والوں سے محو گفتگو ہوتی ہیں
چار نسلوں سے بوتلوں کے کاروبار سے وابستہ محمد یوسف غنی بتاتے ہیں کہ اس گلی کو نارائن ولجی اسٹریٹ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد انہیں اسی مقام پر ٹھہرایا جاتا تھا۔ اس مناسبت سے یہ مقام سرائے کوارٹر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ محمد یوسف کے مطابق یہ گلی لوکل مینوفیکچررز کے لیے بڑا اثاثہ ہوا کرتی تھی۔۔ ان کا خاندان ممبئی میں آج بھی اس کاروبار سے وابستہ ہے۔
بوتل گلی کی ایک دکان اپنے نام کی طرح ماڈرن ہے۔ جہاں شیشے کی پرانی بوتلوں سے لگاؤ رکھنے والے لازمی رخ کرتے ہیں۔
اس دکان سے وابستہ محمد ہارون کا بچپن اسی گلی میں گزرا ہے۔ انہوں نے اس گلی میں شیشے کی بوتلوں کا کاروبار پرفیومز اور پلاسٹک کی بوتلوں میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔
بوتل گلی کی تاریخ دیکھیں تو پاکستان بوتل، ورائٹی بوتل، ایمٹی بوتل، ماڈرن بوتل ، آزاد بوتل اور جوائنٹ بوتل کے نام نمایاں ہیں۔
وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ بوتل گلی کا نام بھی پرفیوم گلی میں ضم ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہاں شیشے کی رنگ برنگی بوتلوں کی تلاش میں آنے والوں کی تعداد بھی معددم ہوتی جارہی ہے

گلی میں شیشے کی بوتلوں کا کاروبار کرنے والی دکانوں کی تعداد چھ کے قریب رہ گئی ہے۔ ان دکانوں میں شیشے کی نایاب فیڈر سے لیکر جوتے کے ڈیزائن کے گلاس اور بلی کی اشکال والی بوتلیں بھی موجود ہیں۔
کچھ بوتلوں کو دیکھ کر طلسماتی کہانیوں میں بیان کی گئیں بوتلوں کا گمان ہوتا ہے۔
چند بوتلوں کے فروخت نا کرنے کی وجہ ان کا نایاب ہونا بھی ہے۔ یہاں ایسی بوتلیں بھی ہیں جو آنے والوں سے محو گفتگو ہوتی ہیں
چار نسلوں سے بوتلوں کے کاروبار سے وابستہ محمد یوسف غنی بتاتے ہیں کہ اس گلی کو نارائن ولجی اسٹریٹ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد انہیں اسی مقام پر ٹھہرایا جاتا تھا۔ اس مناسبت سے یہ مقام سرائے کوارٹر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ محمد یوسف کے مطابق یہ گلی لوکل مینوفیکچررز کے لیے بڑا اثاثہ ہوا کرتی تھی۔۔ ان کا خاندان ممبئی میں آج بھی اس کاروبار سے وابستہ ہے۔

بوتل گلی کی ایک دکان اپنے نام کی طرح ماڈرن ہے۔ جہاں شیشے کی پرانی بوتلوں سے لگاؤ رکھنے والے لازمی رخ کرتے ہیں۔
اس دکان سے وابستہ محمد ہارون کا بچپن اسی گلی میں گزرا ہے۔ انہوں نے اس گلی میں شیشے کی بوتلوں کا کاروبار پرفیومز اور پلاسٹک کی بوتلوں میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔
بوتل گلی کی تاریخ دیکھیں تو پاکستان بوتل، ورائٹی بوتل، ایمٹی بوتل، ماڈرن بوتل ، آزاد بوتل اور جوائنٹ بوتل کے نام نمایاں ہیں۔

وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ بوتل گلی کا نام بھی پرفیوم گلی میں ضم ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہاں شیشے کی رنگ برنگی بوتلوں کی تلاش میں آنے والوں کی تعداد بھی معددم ہوتی جارہی ہے