تحریر: عمران
ابھی تو پوری رات جاگ کر بھی نیند کا احساس نہیں ہوتا ،ابھی تھکاوٹ کا احساس نہیں ابھی تو رت جگوں کے گیت دھڑکنوں میں سمائے ہوئے ہیں۔ چاہت تتلیوں کی طرح من مانایا کرتی دکھائی دیتی ہے۔دامن میں صرف خوشحالی کے رنگ ہے، نئی امیدوں کے دیپ ابھی تو آنکھ میں جل اٹھے ہیں۔
ابھی تو آنچل میں خوابوں کو سمیٹ کر زندگی مسکرا رہی ہے۔ابھی نباہ کی فکر نہیں، بس ساتھ چلنا، اکھٹے رہناہے۔یہ موسم ،یہ ہوائیں، انہیں برسوں اپنا، آپ یاد دلائی گی ۔
یہ گلیاں ،راستے ،شجر ،کیاریوں میں کھلے پھول محبت کی وہ داستانیں رقم کرے گی جنہیں سوچ سوچ کر رشک آئے گا۔
ابھی فکر معاش نہیں ،مستقبل کے سنہرے خواب پلکوں پر سجے ہیں کچھ بننا کچھ کر دیکھنا نے کے عزم کے راستے میں کوئی ہم خیال ملے،جس سے ملکر یوں لگے یہ سب کچھ میرا ہے حیات کی ساری خوشیاں خواہشیں یوں محسوس کرائیں ابھی سب تکمیل کے راستے میں ہے ،وہ راتوں کو دیر دیر تک فون پر باتیں کرنا اسائنمنٹ مکمل کرنا صبح سویرے اس گیٹ پر پہنچنا جہاں ساری خدائی پر پھیلائی کھڑی ہے اپنی آنکھوں سےنباہ کی قسمیں اٹھائی کھڑی ہے۔
عمر جس میں صرف آرزو، آس ،خواہش اور خواب ہیں ۔ کچھ کر دیکھانے کی لگن ہے کچھ بن کردیکھانے کی تڑپ ہے۔
محبت کے پھول جب دل میں کھلتے ہیں تو خود کو بھی معلوم نہیں ہوتا البتہ اس کی خوشبو پورے عالم کو مہکا دیتی ہے۔ پیام اور سندیسہ سنا دیتی ہے کچھ ہوگیاہے جو ہوا ہے وہ سب کچھ ہی تو ہے جوحیات کی بقا ء اور زندگی کی مسرتوں سے عبارت ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں ایک گلی ایسے ہی بھی ہے جسے پریم گلی یا پی جی کہا جاتاہے۔ جو کہ ڈاکٹر محمد حسین لائبریری کے احاطے میں موجود ہے۔ اس کے اطراف میں ہم خیال طالب علموں کے بیٹھنے کی وجہ سے اسے پریم گلی کا نام دیا گیا ۔
جہاں خیال ملتےہو، سوچ ایک ہی ہو ، ارادے مضبوط ہوں، تو ساتھ بیٹھ کر ، بات کر کے زندگی کی ہر ادا بےحد حسین ہوجاتی ہے، وقت، پل اور لمحے سب ہی ٹہرے نظر آتے ہیں۔
اب آگے کچھ بچانہیں سکون تسکین کا احساس اپنی بلندی کو چھو اٹھتا ہے۔ کوئی کسی کو پسند کریں ، اسکے ساتھ رہے اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔
پریم گلی وہ مقام ہے جہاں پر طلباء و طالبات اپنے بریک ٹائم یا چھٹی کے وقت اکھٹے ہوتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے اسائنمنٹ سے لیکر، لیکچر، کوئی ٹاپک سمجھ نہیں آیا کسی کو یا یونیورسٹی میں ہونے والی تمام سرگرمیاں امتحانات کی تیاری تمام موضوعات پر خوش گپیاں لگتی ہیں۔ تبادلہ خیال ہوتاہے۔
نوجوان جوڑوں کو اکھٹے دیکھ کر زندگی کی ہر ادا بےحد دلکش نظر آتی ہے محبتوں کی باتیں پریوں کے دیس کے بجائے حقیقی زندگی کا تصور پیش کرنے لگتی ہیں۔
ہم خیال لوگ تو یونیورسٹی کے بعد عملی زندگی میں بھی ایک ہوجایا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یونیورسٹی میں پڑھنے کے بعد ان جگہوں پر اپنی ماضی کی یادیں تازہ کرنے پہنچ جاتےہیں۔
یہ گلی پریم گلی کے نام سے جانی پہنچانی ضرور جاتی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مقصد اور خیال تصور نہ کیا جائے یہاں پر کوئی بھی طالب علم جو بیٹھتا ہوگا وہ صرف رومانوی باتوں کی وجہ سے اس مقام کا رخ کرتاہے اسٹوڈنٹ فارغ وقت میں چائے دوستوں کے سات بات چیت اسائنمںٹ کے بارے میں باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی طلباء وطالبات میں یہ پریم گلی المعروف پی جی کے نام سے مشہور ضرورہے۔
قاسم کے لذیذ سموسے چٹنی کے ساتھ کھاکر جب آپ چائے کی چسکی لینگے تو دن بھرکی تکھاوٹ اور پریشر سب ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔
سڑک کے دونوں اطراف میں گھنے درخت کی چھائوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بات چیت کرتے جانے کا بھی اپنا ایک الگ ہی لطف ہے۔