اکتوبر 14, 2025

وومن ایکشن فورم کی جانب سے جاری کردہ چار سالہ رپورٹ نے سندھ میں خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ رپورٹ میڈیا مانیٹرنگ کے ذریعے جمع کیے گئے کیسز پر مبنی ہے، جن میں 70 فیصد کیسز میں فورم کی براہ راست مداخلت شامل رہی۔ رپورٹ نہ صرف تشدد کی شدت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ پدرشاہی نظام کے کئی غلط مفروضوں کو بھی چیلنج کرتی ہے۔

تشدد کی اقسام اور رپورٹ شدہ کیسز (2021–2025)
تشدد کی قسم رپورٹ شدہ کیسز
عورتوں کے قتل 545+
خودکشیاں 622+
غیرت کے نام پر قتل 310+
جنسی زیادتی (ریپ) 228+
اغوا / جبری شادی 190+
ریپ کے بعد قتل 51
ہر عدد کے پیچھے ایک برباد زندگی، ایک خاموش چیخ، اور ایک تباہ حال مستقبل چھپا ہے۔

تشدد کی تہہ در تہہ حقیقت
گھر — محفوظ نہیں
رپورٹ کے مطابق خواتین سب سے زیادہ تشدد کا شکار اپنے گھروں میں ہوتی ہیں، اور حملہ آور اکثر قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ یہ اس مفروضے کو جھٹلاتا ہے کہ گھر عورت کے لیے محفوظ ترین جگہ ہے۔
قانونی خودمختاری بمقابلہ پدرشاہی ردِعمل
خواتین کی خودمختاری میں اضافہ پدرشاہی نظام کو چیلنج کرتا ہے، جس کے نتیجے میں منظم اور پرتشدد ردِعمل سامنے آتا ہے۔
ریاستی اداروں کی ناکامی
رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ریاستی ادارے اکثر غیر مؤثر یا ناقابلِ رسائی ہوتے ہیں، اور متاثرہ خواتین کو بروقت تحفظ یا انصاف نہیں ملتا۔


تشدد کا معمول بن جانا
تشدد کو سماجی معمول سمجھا جانے لگا ہے، جس سے مجرموں کو سزا نہ ملنے کی روایت مضبوط ہوئی ہے۔
پدرشاہی کی خونخوار شکل
خواتین کے ساتھ انتہا درجے کی بربریت روا رکھی گئی — چہرے مسخ کرنا، ناک کاٹنا، جلد اتارنا، اور سر تن سے جدا کرنا — یہ سب خوف اور تابع داری قائم رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
میڈیا اور عوامی شعور
میڈیا اکثر سنسنی خیز انداز میں خبریں نشر کرتا ہے، خواتین کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے، اور نظامی خامیوں پر روشنی نہیں ڈالتا۔
نفرت انگیز مہمات
فیمینسٹ تحریکوں کے خلاف مذہبی اور سیاسی بیانیے کے ذریعے منظم نفرت انگیز مہمات چلائی گئیں، جنہوں نے خواتین کی جدوجہد کو "غیر اسلامی” یا "فحاشی” سے منسوب کر کے بدنام کیا۔

ایک اجتماعی بحران
یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ صنفی بنیادوں پر تشدد صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم نظریاتی، سیاسی اور سماجی جنگ ہے۔ اگر ریاست، میڈیا اور معاشرہ اس تشدد کو معمول یا قابلِ جواز سمجھتے رہیں گے، تو آئندہ نسل کی خواتین کے لیے بھی زندگی غیر محفوظ رہے گی۔
ضرورت ہے ایک بنیادی، قانونی، فکری اور سیاسی تبدیلی کی — تاکہ خواتین کی زندگی محفوظ، باعزت اور خودمختار بنائی جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے