تحریر عرفان علی
موسمیاتی تبدیلیوں نےدنیا بھر کو متاثر کیاہے وہی پاکستان کے بھی مختلف اضلاع اس کی لپیٹ میں ہےشدید گرمی کے اثرات نے انسان کی زندگی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیاہے۔
گرمی کے اثرات نے جہاں انسان کی طرز زندگی بدل کررکھ دی ہے وہی پر لباس ، خوراک ، رہائش اورمعمولات زندگی بدل دیئےہیں۔
سندھ میں 2022 کے سیلاب کا خوف آج بھی کھیتی باڑی سے وابستہ کچے مکانوں کےمکینوں کے ذہنوں میں رہتاہے بڑھتی مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دو بھر کردیا ۔ وہ آنے والے کسی طوفان اور ہنگامی صورتحال سے اب ڈرنے لگے ہیں ۔
پاکستان میں مون سون کا سیزن شدید بارشوں کا سیزن کہلاتاہے جس کے ذیادہ ہونے کے باعث سندھ کے مختلف اضلاع میں سیلاب کی صورتحال جنم لیتی ہے گزشتہ سیلاب نے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کردی، مال موشیوں کو نقصان پہنچا اور گھر پانی میں بہہ گئے۔ کافی عرصے تک ان کےعلاقوں سے نکاسی آب کا مرحلہ حل نہ کیا جاسکا بے سرو سامانی کی کیفیت میں یہ ملک کے دیگر علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جہاں پر رہائش خوراک اور بیماری کی وجہ سے انہیں شدید پریشانی کا سامنا رہا ۔
اب بھی سندھ کے کھیتی باڑی سے منسلک افراد جو معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے اس خوف میں مبتلا رہتےہیں اس بار اگر سیلاب آگیا تو ہمارا کیا ہوگا ہم رہےگے کیا کھائیں گے اور ہماری بچیوں کا مستقبل کیا ہوگا ۔
وہ اس خوف ڈر اور ممکنہ اندیشوں کی وجہ سے اپنی کم عمر بچیوں کی شادی کرالیتے ہیں جنہیں مون سون دلہنوں کا نام دیا گیا ۔ مون سون دلہنیں ان بچیوں کو کہا جارہاہے جن کی بارش سے پہلے یا متوقع بارش کےپیش نظر شادی کرادی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پریشان کن بات یہ ہےکہ یہ بچیاں بہت چھوٹی عمر کی ہیں اس عمر میں انکی شادی کرانا کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ۔
حال ہی میں سندھ کے ضلع دادو میں 45 کم عمر بچیوں کی شادی کرادی گئی خان محمد ملاح گوٹھ ،جہاں پر ان بچیوں کی شادیاں کرائی گئیں ۔
جب بچیوں کے والدین سے پوچھا گیا کہ جن بچیوں کی شادی کرائی گئی ہے انکی کیا عمریں ہیں تو انہوں نے کہاکہ 13 سے 14 سال کی بچیاں ہیں ۔ پھر اس میں ایک اور پہلو یہ سامنے آیاہے کہ غربت کے پیش نظر والدین نے بچیوں کی جن گھرانوں میں شادی کرائی ہے اس کے عیوض ان سے رقم حاصل کی ہے اور کہاہےکہ ہم غریب ہے نہ جہیز دے سکتے ہیں اور نہ ہی شادی کےلیے دیگر انتظامات کرسکتے ہیں جن افراد سے انکی شادی کرائی گئی وہ عمر میں کافی بڑے ہیں ۔
سماجی تنظمیں جو سندھ میں چائلڈ میرج پر کام کررہی ہے ان کا کہناہے کہ پہلے یہ شادیاں شعور نہ ہونے کے باعث کی جاتی تھی اب یہ شادیاں معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے کی جارہی ہے۔ اس پر وزیر اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی نوٹس لیا اور پوچھا ہے کہ یہ شادیاں کرانے کی وجوہات کیاہیں آیا کہ یہ سیلاب متاثرین تھے انکو امداد ملی تھی یا نہیں تمام رپورٹ ڈی سی حیدرآباد سے طلب کی گئی ہے۔
پاکستان میں شادی کی قانونی عمرپاکستان کا چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 لڑکوں کی شادی کی قانونی عمر 18 اور لڑکیوں کے لیے 16 سال مقرر کرتا ہے۔ اپریل 2014 میں، سندھ اسمبلی نے سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ منظور کیا، جس نے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے کم از کم عمر 18 سال کر دی، جس کی خلاف ورزی پر سزا کا مستحق ہوگا۔
بین الاقوامی معاہدے، بشمول بچوں کے حقوق کا کنونشن اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن نے بچوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ 1994 میں آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس نے بھی ممالک سے کم عمری کی شادی کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔