قیام پاکستان کے بعد کے ایم سی نے کراچی کی ایک سڑک کا نام نیپئر اسٹریٹ سے بدل کر جہانگیر روڈ رکھ دیا۔ مگر آج بھی لوگ اس سڑک کو نئے نام سے نہیں پکارتے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس سڑک کے اطراف بہت کچھ تبدیل ہوا۔ یہاں موجود طبلہ گلی دم توڑ گئی۔ کچھ پرانی دلکش عمارتوں کا حسن ماند پڑ رہا ہے اور سینما گھر ڈھانچوں میں ڈھل چکے ہیں۔۔ تاریخ کی ورق گردانی ۔
افواج انگلشیہ کے اعلی مرتبت فوجی افسر چارلس نیپئر کے نام سے موسوم نیپئر روڈ اپنے ابتدائی ایام میں نیپئر اسٹریٹ کہلاتی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد 1951 میں کراچی میونسپل کارپوریشن نے اس کا نام جہانگیر روڈ تو رکھ دیا۔ لیکن کراچی والے آج بھی اسے نیپئر روڈ ہی پکارتے ہیں۔
حتی کے گوگل میپ بھی آئی آئی چندریگر روڈ سے لیکر چاکیواڑہ روڈ تک جانے والے راستے کا نام نیپئر روڈ ہی بتاتا ہے۔ درمیان میں ایم اے جناح روڈ بھی آتا ہے۔
نیپئر روڈ کا نام آئے تو ذہنوں میں قدیم بازار حسن یا ریڈ لائٹ ایریا کا تصور آتا ہے۔ اور یہی اس کا ماضی بھی تھا۔ ان ہی گلیوں کے درمیان ایک تنگ گلی طبلہ گلی کہلاتی ہے۔ ایک دور میں یہاں طبلے اور ڈھولک کی کئی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ دھیرے دھیرے یہ کام بند ہوگیا۔
صرف یہی نہیں ایک وقت میں یہاں گھنگرو اور ہار کا ،،، کاروبار بھی عروج پر تھا۔
اس دشت میں ایک شہر تھا کہ مصنف اقبال اے رحمن مانڈویا بتاتے ہیں کہ پورٹ سے قریب ہونے کے سبب یہ علاقہ ان سرگرمیوں کا مرکز بنا۔
قدیم کراچی میں سینما گھروں کا تصور بھی عام تھا۔
یہاں موجود سینما گھروں میں نگار سینما سب سے نمایاں تھا۔ نور محل، راکسی اور سپر سینما سمیت دیگر سینما گھر اب قصہ پارینہ ہوچکے ہیں۔۔
البتہ یہاں موجود ٹھوکر گلی کے نام سے اب بھی کئی لوگ واقف ہیں۔۔
مگر حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ ضیاء الحق کے دور میں یہاں موجود سو سالہ قدیم عمارتیں توڑ کر نئی عمارتیں تعمیر ہونے لگیں۔
ہجوم بادہ و گل میں ہجوم یاراں میں
کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے۔
آج کا نیپئر روڈ یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ نگار سینما میں پتھارے والے سامان رکھتے ہیں، پرانی عمارتیں کھوکلی اور طبلہ گلی ویران ہے۔ جس دن لوگوں نے اسے جہانگیر روڈ پکارنا شروع کیا،، عین ممکن ہے اس کے ماضی کے تمام ہی نقوش مٹ جائیں