سمندر کی گہرائی سےرزق تلاش کرنے والے ماہی گیر بھی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔
چھوٹے ماہی گیروں پربڑی کشتیوں کےسفری اخراجات
کابوجھ پڑاتوتھرماپول سےبنی دوفاح نامی کشتی کی تیاری اوراس کےاستعمال کارحجان بڑھنےلگا ۔اس کشتی میں ناانجن کی ضرورت ہوتی ہے،
نہ ایندھن کاکوئی خرچ۔
شکارکی تلاش میں ٹولیوں کی صورت میں بڑی کشتیوں میں سفرماہی گیروں کی پرانی روایت ہے۔
لیکن بڑھتی مہنگائی سےمتاثرچھوٹےپیمانےپرشکارکرنےوالےمچھیروں میں تھرماپول سےبنی چھوٹی کشتیوں کےاستعمال کارجحان بڑھ گیاہے۔
اس کشتی میں نہ انجن کااستعمال ہوتاہے،نہ ہی کوئی ایندھن کاخرچہ۔پلاسٹھ کے دو ٹکروں کو چپّوکے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
(یہ ہم لوگوں کے پنکھے ہیں جو انجن کے پن کےہوتے ہیں ویسے یہ بندے کے پنکھے ہیں یہ نہیں ہوں گے تو ہم شکار پہ نہیں جا سکتے جب یہ ہوں گے نا تب کشتی بھاگے گا اور اسانی ہوگی چلانے میں خالی ہاتھ سے یہ کشتی نہیں چلےگی
ابراہیم حیدری کےرہائشی غلام حسین نے بھی اپنی اس کشتی کوگھرمیں خودہی تیارکیاہے۔
تھرماپول کوتین حصوں میں کاٹ کرجوڑاجاتاہے۔دوفانامی اس کشتی میں صرف ایک ہی ماہی گیرکےبیٹھنےکی گنجائش ہوتی ہے۔
اسی کو سمجھو کہ ٹکڑے بناتے ہیں پہلے ہم لوگ ٹکڑے بنا کے پھر اس کا پیس کٹائی کر کے پھر اس پیس کو سمجھو جوڑ بنا کے پھر اس کو سمجھو کہ ہم لوگ چپکاتے ہیں چپکا کے پھر سمجھو کتنے ایک دو تین تین پرزے ہیں اس کے تین پرزوں سے ہم لوگ سمجھو چپکاتے ہیں چپکا کے پھر اس کو اسٹیل لامی مار کے پھر بلاک بلاک رکھ کے اس کو بازو مضبوط بناتے ہیں تاکہ یہ چل سکے کشتی مگر اس میں دوسرا بندہ نہیں جا سکتا ہے اس میں صرف ایک ہی بندہ شکار کرتا ہے
صبح سویرے غلام حسین ہی نہیں بستی کے اور کئی مچھیرے بھی اپنی کشتیاں کندھے پر اٹھائے سمندر کا رخ کرتے ہیں۔
تھرماپول کی چھوٹی سی کشتی نازک اورخطرناک صحیح،، لیکن ان مچھیروں کے پاس رزق کمانے کے لئے کوئی اور دوسرا حل نہیں۔اس کشتی کاوزن 15کلوسےزائدہوتاہے،
جس میں 10کلوتک مچھلی کاوزن رکھاجاسکتاہے،ہاتھوں
کی مددسےکشتی چلانےکےباعث دوکلومیٹرتک سمندری سفرکیاجاتاہے
گہرے سمندر میں رزق تلاش کرنے کے بعد شام ڈھلنے پر تھرپول کی کشتیوں پر سوار یہ ماہی گیر شکار سمیٹے ساحل کا رخ کرتے ہیں۔