کراچی میں ریڈ لائن بس نے چلنے سے پہلے شہر میں لگے ہزاروں درختوں کو روند ڈالا۔ درختوں کی کٹائی کے خلاف درخواست میں اعتراف۔کنٹریکٹر نےبتایا اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد درخت کاٹ چکے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے معاہدے میں درخت کاٹنے کی جگہ منتقل کرنے کی بات کیوں نہیں۔ شہر میں جگہ جگہ پیپل اور برگد کے درخت لگے تھے۔ شہر کا ایکو سسٹم تباہ ہوگیا۔ اب شہر میں طوطے نظر نہیں آتے۔
سندھ ہائی کورٹ میں کنٹریکٹر کے وکیل نے بتایا سروے کے مطا بق ٹریک کے راستے میں تین ہزارآٹھ سو درخت تھے۔اب تک ایک ہزار پانچ سو چونسٹھ درخت کاٹے جا چکے ہیں۔ ان میں پچہتر فیصد درخت کورنوکارپس کے تھے۔ معاہدے کے تحت سولہ ہزار سے زائد درخت ہمیں لگانے ہیں۔ نیم، گل مہر اور سکھ چین درخت لگائے جائیں گے۔سینکڑوں درخت جامعہ کراچی میں لگائے جاچکے ہیں۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیئےیہ شہر میں سکھ چین کونسا درخت ہے۔کراچی میں تو نہ سکھ ہے نہ چین ہے۔عدالت نے کہا شہر میں پیپل اور برگد کے درخت ہوتے تھے۔ ان کی عمر زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر پرندے بھی اپنے گھونسلے بناتے تھے۔کراچی میں نیم، برگد اور پیپل مقامی درخت ہیں۔یہ الگ بات ہے کھجور کے درخت لگا کر دس ہزار کے بجائے بیس ہزار کا بل بنادیا جائے گا۔ایسے ہی کراچی کا ایکو سسٹم تباہ ہوگیا ۔ سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے بتایا نرسری میں دو ہزار درخت تیار کئے جارہے ہیں۔کوریڈور تیار ہونے کے بعد درخت لگائے جائیں گے۔جو فائدہ مند مقامی درخت ہیں وہی لگائے جائیں گے۔ عدالت نے کہا ایک ہفتے کی مہلت دے رہے ہیں،، بتایا جائے کون کونسے درخت فائدہ مند ہیں۔ مزید سماعت انتیس اکتوبر تک ملتوی کردی۔