اکتوبر 14, 2025


کلائمیٹ ایکشن سینٹر کی جانب سے”زندگی کا تصور” سیریز کا آغاز
ناپا اور روٹگرز یونیورسٹی کے تعاون سے پہلے دن ہونے والے سیشن نے ماحول، ثقافت اور اجتماعی مستقبل کو ساتھ ملایا

کلائمیٹ ایکشن سینٹر (CAC) نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA)، کراچی میں اپنے تاریخی منصوبے‘‘زندگی کا تصور’’(Imagining Life) کا افتتاح کیا۔ افتتاحیتقریبںماحول، ثقافت اور تخیل پر ایک کثیر الشعبہ مکالمے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تقریب میں فن، علم اور سماجی جدوجہد کے نمایاں افراد نے شرکت کی۔


تقریب کا آغاز ناپا کی نمائندگی کرنے والے جبران خان کی استقبالیہ تقریر سے ہوا، جس کے بعد تقریب کاباضابطہ افتتاح کیا گیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں ماحولیات کو ثقافتی اور فکری گفتگو کے مرکز ی دھارے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
کلائمیٹ ایکشن سینٹر کے ڈائریکٹر یاسر دریانے ”زندگی” کے استعارے پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے ہاتھ میں گھاس کا ایک تنکا تھام کرکہا کہ ’’یہ کوئی خاص پودا نہیں، لیکن جب ہم تباہی اور خشک سالی کی بات کرتے ہیں، جب سب کچھ برباد ہو جاتا ہے، تو انہی کھنڈرات پر سب سے پہلے نئی گھاس اگتی ہے۔”


اس موقع پر امریکہ سے آئی ہوئی خاص مہمان ڈاکٹر سعدیہ عباس (سابق ڈائریکٹر، سینٹر فار یورپین اسٹڈیز، روٹگرز یونیورسٹی) نے اپنے نظریے ”تخیل کی گل سڑن” پر گفتگو کی اور واضح کیا کہ ماحولیاتی بحران کس طرح ثقافتی اور فکری جمود کو جنم دیتا ہے۔ڈاکٹرسعدیہ عباس کا کہنا تھا کہ کہ انسانیت کو اپنی زندہ دنیا کے ساتھ تعلق کو ازسرِنو استوار کرنا ہو گا۔انھوں نے کہا کہ یہ لڑائی صرف سائنسی، قانونی یا سیاسی نہیں ہے، ہمیں اپنی تمام علمی اور فنکارانہ صلاحیتیں استعمال کرنا ہوں گی۔ ہمیں علومِ انسانی کی ضرورت ہے،ہمیں فنکاروں، ادیبوں اور دانشوروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مستقبل کو محض تباہی کے منظرناموں تک محدود نہ کیا جائے ،ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے صرف ڈرنا کافی نہیں، ہمیں نئی روایات کو اپنانا ہوگا اور پرانی کو برقرار رکھنا ہوگا، زندگی سے وابستہ رہنا ہوگا، ہمیں زندگی کا تصور اور پھر سے تصور کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری اجتماعی کوشش ہے کہ ہم آفات سے آگے سوچ سکیں، اور یہ تصور کرسکیں کہ تباہی کے بیچ میں زندگی گزارنے کا مطلب کیا ہے۔
سی اے سی کے نئے منصوبے کی افتتاحی تقریب میں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیت نیلوفر فرخ نے اپنی پریذینٹیشن کے ذریعے بتایا کہ فن اور ثقافت کس طرح مایوسی کے بیانیوں کو چیلنج کرتے اور تبدیلی کی توانائی پیدا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک نیا نظام بنانے کی کوشش کی، ایسا نظام جس میں سب کے لیے جگہ ہو۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا،آج ہم سیاسی، سماجی اور معاشی تقسیم دیکھتے ہیں۔ کوئی ان خلیجوں کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔انہوں نے کراچی لاجامیا، شاہانہ راجانی کے لیاری میں بچوں کے ساتھ کام کرنے سمیت دیگر کئی منصوبوں کی مثالیں دیں جو فن کے ذریعے کمیونٹی سے جڑتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ کاوشیں نہ صرف نظر انداز مسائل کو نمایاں کرتی ہی بلکہ نوجوانوں کو اپنے ورثے اور ماحول سے جوڑتی ہیں۔نیلوفر فرخ نے مزید کہا کہ جمالیاتی مزاحمت بقا اور معنویت کی ایک صورت بن چکی ہے، جو جذباتی سچائیوں، کمیونٹی اور روحانی استقامت کا احترام کرتی ہے،یہ ایک ایسا میدان پیدا کرتی ہے جہاں غیر منطقی پن کمزوری نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت کا حصہ ہے۔
گفتگو کے بعد پینل ڈسکشن‘‘کنیکٹنگ ٹرانسفارمیٹو انرجیز’’منعقد ہوئی جس میں سائرہ دانش احمد (کراچی کلیکٹیو)، عمران مشتّر نفیس (آرٹسٹ)، سمیطہ احمد (ویژول آرٹسٹ، آرکیٹیکٹ اورناپا کی سی او او) اور آن لائن شریک ہونے والے امین رحمان شامل تھے۔
اسم موقعپر عمران مشتّر نے کہا کہ پاکستان میں خواندگی اور تعلیم ایک جیسی نہیں اور پرفارمنگ آرٹس کا شعبہ تعلیم کو زیادہ کارآمدبنا سکتا ہے،پرفارمنگ آرٹس ہر گھر، گلی اور محلے میں خودبخود موجود ہوتی ہے۔ بچے شاید کھیلنے سے روک دیے جائیں، لیکن زندگی بے حد فراواں ہے۔
تقریب کے شرکانے سندھی زبان کی 28 برس بعد بننے والی پہلی فیچر فلم‘‘Indus Echoes’’دیکھی، جس کے ہدایتکار راہول اعجاز ہیں۔ یہ فلم کسانوں، شاعروں، ماہی گیروں، محبت کرنے والوں اور خود دریا کی کہانیوں کے ذریعے انسان اور دریائے سندھ کے پیچیدہ تعلق کو اجاگر کرتی ہے۔واضع رہے کہ یہ فلم 12 ستمبر 2025 کو ملک بھر میں سینی پیکس اور نیو پلیکسیز سنیما گھروں میں ریلیز کی جائے گی۔
اس تقریب کا ختتام پینل ڈسکشن جس کا موضع‘‘Imagining the Life of the Indus’’ تھاسے ہوا، جس کی نظامت ڈاکٹر سعدیہ عباس نے کی۔جس میں راہول اعجاز، یاسردریا اور آفاق بھٹی شریک ہوئے۔گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے آفاق بھٹی کا کہنا تھا کہ یہ دریائے سندھ کامرثیہ ہے، جس کے ساتھ صدیوں سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی رہی ہے۔ دریا تہذیبیں بناتا بھی ہے اور انہیں تباہ بھی کرتا ہے۔ شاعری درختوں سے بھی ہم کلام ہوتی ہے، یہ ہمیںیاد دلاتی ہے کہ سندھ صرف ایک دریا نہیں، یہ سب تہذیبوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ سکھر سے ڈیرہ اسماعیل خان، سوات سے تبت تک، سب اس میں موجود ہیں۔
یاسر دریانے مقامی آوازوں کو فیصلہ سازی کے مرکز میں لانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم دریاؤں کی بات کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ لوگ جو دریا کے کنارے رہتے ہیں عدالت میں جا کر اپنے اور دریا کے حقوق کا مطالبہ کریں۔ لیکن افسوس کہ ہم یہ نہیں دیکھتے۔تقریب کے آخر میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔

’’زندگی کا تصور‘‘کا دوسرا سیشن18 اگست کو منعقد ہوگا، جس میں مزید پینلز، کلیدی تقاریر اور فنون سے تعلق رکھنے والی شخصیتیں شامل ہوں گی تاکہ ماحول، ثقافت اور کمیونٹی کے درمیان مکالمے کو مزید گہرا کیا جا سکے۔
کلائمیٹ ایکشن سینٹر (CAC) کے بارے میں
کلائمیٹ ایکشن سینٹر، کراچی میں قائم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ماحولیاتی شعور رکھنے والی آوازوں کو تقویت دیتا ہے اور تخلیقی و سائنسی کمیونٹی کے درمیان تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ اپنی تقریبات، تعلیم اور وکالت کے ذریعے یہ مرکز ماحولیاتی انصاف کے لیے نظامی تبدیلی کو تحریک دیتا ہے۔


کلائمیٹ نیریٹوز کے بارے میں
’’زندگی کا تصور‘‘کلائمیٹ نیریٹوز کا ایک حصہ ہے، جو کلائمیٹ ایکشن سینٹر کراچی کا منصوبہ ہے۔ اس کا مقصد کہانی گوئی، تخلیقی اظہار اور عوامی مکالمے کے ذریعے ماحول دوست ثقافتی شعور کو مرکزی دھارے میں لانا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے