نومبر 21, 2024

تحریر عمران اطہر منگی ۔

پاکستان میں عوامی مسائل کےحل کےلیے جمہوریت کے گن ذیادہ گائے جاتے ہیں کسی حدتک یہ بات  حقیقت کی آئینہ دار بھی ہے۔

عوامی حق رائے دہی سے منتخب کئے گئے لوگ ہی شاید ان کے مسائل کو حقیقی معانوں میں حل کرسکتے ہیں۔ لیکن جہموری نظام میں مرد اور خواتین کو  کتنی مساوات حاصل رہی ہے۔

اس  بات کا تعین جنرل الیکشن کے نتائج اور عمل سے کیا جاسکتاہے۔۔8 فروری 2024 میں جنرل الیکشن پاکستان  میں ہوئے۔

 جس میں ماضی کے مقابلے خواتین نےکاغذات نامزدگی دس فی صد  ذیادہ جمع کرائے جو ایک سماجی شعوری کی جانب ایک بہترین عمل ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے

2024 انتخابات:

جمع کئےگئے  28 ہزار سے زائد کاغذات نامزدگی میں خواتین کا تناسب 11 فیصد تھا۔

پنجاب (48.3 فیصد)

سندھ (22.7 فیصد)

 خیبر پختونخوا (18.4 فیصد)

بلوچستان (9.3 فیصد)

اسلام آباد (1.3 فیصد)
قومی اسمبلی:

سات ہزار سات سو13 امیدواروں نے قومی اسمبلی کے لیے کاغذات  جمع کروائے تھے جس میں6.2 خواتین اور مرد 93.8 تھے۔

صوبائی اسمبلی:

18 ہزار پانچ سو 46 امیدواروں نے کاغذات  میں  95.6 فیصد مرداور4.4 فیصد خواتین تھیں۔

قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے کل 18 سو 24 خواتین نے کاغذات جمع کروائے تھے۔

قومی و صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے لیے کل پانچ سے 43 افراد نے کاغذات جمع کروائے تھے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن سے قبل خوب الیکشن مہم چلائی اور کامیاب ہوئے۔

کامیاب امیدوار

پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 28، ن لیگ نے 13 جبکہ پیپلز پارٹی نے 11 نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے۔

ان میں سے پی ٹی آئی کی 5، ن لیگ کی 4، پیپلز پارٹی کی 2 جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کی 1 خاتون امیدوار جنرل نشست پر کامیاب قرار پائیں۔

2024 کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کل 882 خواتین امیدواروں نے الیکشن لڑا۔ ان میں سے 312 نے قومی اسمبلی کے لیے اور 570 نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔

قومی اسمبلی کے لیے ملک بھر سے 12 خواتین امیدوار جنرل نشستوں پر الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

کامیاب ہونے والی خواتین میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب خواتین امیدواروں میں سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ 5 آزاد امیدواروں میں شاندانہ گلزار خان (این اے 30، پشاور 3)، انیقہ مہدی بھٹی (این اے 67، حافظ آباد)، عائشہ نذیر جٹ (این اے 156، وہاڑی 1)، عنبر مجید (این اے 181، لیہ 1) اور زرتاج گل (این اے 185، ڈیرہ غازی خان 2) شامل ہیں۔

مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر مریم نواز شریف (این اے 119، لاہور III)، شذرا منصب کھرل (این اے 112، ننکانہ صاحب II)، بیگم تہمینہ دولتانہ (این اے 158، وہاڑی VIII) اور نوشین افتخار (این اے 73، سیالکوٹ IV) کامیاب ہوئی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے 2 خواتین امیدواروں نفیسہ شاہ (این اے 202، خیرپور I) اور شازیہ مری (این اے 209، سانگھڑ I) نے اپنے اپنے حلقوں سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر کراچی کے حلقہ این اے 232، کورنگی I سے ایک امیدوار آسیہ اسحاق صدیقی نے کامیابی حاصل کی۔

سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ خیر پور کے حلقہ این اے 202 سے 1 لاکھ 11 ہزار 196 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے جی ڈی اے کے امیدوار سید غوث علی شاہ کو شکست دی۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 45.38 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 6 ہزار 82 تھی۔

نفیسہ شاہ 2001 سے 2007 تک ضلع خیرپور کی ناظم کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔ 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں وہ سندھ سے خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔

وہ 2018 کے جنرل الیکشن میں بھی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھی۔

ضلع سانگھڑ کے سیاسی مری خاندان سے تعلق رکھنے والی شازیہ مری تیسری بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ اس حلقے میں شازیہ مری نے 1 لاکھ 56 ہزار 2 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے جی ڈی اے کے امیدوار محمد خان جونیجو کو 16 ہزار 879 ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 52.06 فیصد رہا جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 11 ہزار 879 تھی۔

شازیہ 2002 کے عام انتخابات میں بھی اسی حلقے سے صوبائی اسمبلی کی رکن بنی تھیں اور 2008 میں خواتین کی مخصوص نشست پر پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ وہ 2010 تک سندھ کی وزیر اطلاعات بھی رہیں۔ شازیہ مری کے والد عطا محمد مری 1967 میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ممبر، 1970 میں ممبر قومی اسمبلی اور 80 کی دہائی میں مجلس شوریٰ کے ممبر رہے۔ 1990 سے 1993 تک سندھ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی رہے۔ شازیہ مری کی والدہ پروین مری 1985 سے 1986 تک ممبر سندھ اسمبلی رہیں۔

کراچی کے حلقہ این اے 232 کورنگی سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی امیدوار آسیہ صدیقی 84 ہزار 592 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عدیل احمد 66 ہزار 753 ووٹ حاصل کر سکے۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 43 ہزار 6 جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 3 ہزار 789 تھی۔

2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر کراچی سے جن خواتین نے الیکشن میں حصہ لیا تھا ان میں ایم کیو ایم پاکستان کی کشور زہرہ، افشاں قنبر علی، پاک سر زمین پارٹی کی فوزیہ قصوری اور فوزیہ حمید شامل تھیں۔

پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا اعزاز مریم نواز کو حاصل ہوا جبکہ ثریا بی بی ضلع چترال سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی سپیکر بنیں جبکہ پیپلز پارٹی کی غزالہ گولہ نے ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی کا حلف اٹھایا۔

مریم نواز کو 2013 میں وزیراعظم یوتھ پروگرام کا انچارج مقرر کیا گیا، مریم نواز کو بی بی سی کی رپورٹ میں 2017 کے لئے دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل کیا گیا، لیڈر شپ کے اعتراف میں انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مقرر کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی غزالہ گولہ بلوچستان اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئیں، بلا مقابلہ منتخب ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی صوبائی صدر غزالہ گولہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی نئی تاریخ رقم ہوئی، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ اور سنی اتحاد کونسل کی ثریا بی بی ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئیں۔

ثریا بی بی اپریل 1979 کو ضلع چترال کی پسماندہ تحصیل مستوج میں پیدا ہوئیں، ثریا بی بی خیبرپختونخوا کی واحد خاتون ہیں جو جنرل نشست جیت کر صوبائی اسمبلی تک پہنچیں۔

سندھ  کی سیاست  وڈیرہ ، شاہ اور پیر کلچر  کے زیر اثر رہی ہے ۔ اس میں مرد کو ہی فوقیت حاصل رہی ہے تاہم وقت کے ساتھ شعور اور آگاہی کی وجہ سے خواتین نے ہر جگہ ہر مقام پر اپنی اہمیت منوالی ہے ۔ لیکن جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھنے والی خواتین بآاسانی الیکشن میں کامیاب ہوتی ہیں۔

عام گھرانوں کی لڑکیاں جنہوں نے 2024 کے الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں انیلا ملاح اور سندھو نواز گھانگھرو ، عروسہ لاشاری سرفہرست اور ان جیسی دیگر خواتین نےجو الیکشن کے اس مشکل پروسیس میں شامل ہوئی انہیں عوام نے حق راہی دہی سے منتخب نہیں کیا۔

ادارہ شماریات پاکستان کے حالیہ جاری اعداد شمار کےمطابق سندھ کی مکمل آبادی 5 کروڑ 56 لاکھ 96 ہزار 174 ہےجن میں خواتین کی تعداد2 کروڑ 66 لاکھ 77 ہزار 501 ہے اور اس مقابلے میں مرد دو کروڑ 90 لاکھ 17 ہزار 42 ہیں۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو خواتین مردوں کے مقابلے میں آبادی کےلحاظ سے بھی ذیادہ کم نہیں ہے ۔

عروسہ لاشاری کا تعلق سندھ کے علاقے ٹھل سے ہے ۔پیشے کے لحاظ سے وہ  وکیل ہے۔روایتی اور فرسودہ نظام کے خلاف ہے۔تبدیلی ترقی اور بہتری پر یقین رکھتی ہیں ۔عروسہ نے دو ہزار 24کے عام انتخابات میں حصہ لیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے ٹکٹ پر پی ایس 2ٹھل سے انتخابات لڑا تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکیں۔کہتی ہے کہ روایتی نظام میں کسی نواب سردار کے مد مقابل الیکشن لڑنے کا سوچنا بھی ہمارے یہاں مشکل عمل سمجھا جاتا ہے ۔ہمارے یہاں کسی مرد کے مقابلے میں انتخابات لڑنے کا مقصد مشکلات اور پریشانیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

اس میں بھی ایک سب سے بڑا مسئلہ عوامی شعور کا بھی ہے وہ خواتین امیدواروں کو ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ہیں ۔ انہیں اپنے نواب سردار سے ہی پیار ہوتاہے اور خواتین کو ہمارے یہاں بڑی پارٹیوں میں ٹکٹ بھی کم دیا جاتاہے آپ سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کا ہی حال دیکھ لیں۔

صنفی امتیاز اور تضحیک سیاست دانوں کا وہ پسندیدہ ہتھیارہے۔جس کے استعمال سےنہ قانون کی کوئی دفعہ لگتی ہے نہ ہی عوامی تنقید اثر رکھتی ہے۔ سندھو نواز گھانگھرو کاتعلق نوشہروفیروز،کنڈیارو سے ہے۔سندھو نے لاہور نیشنل آف آرٹس سے فلم ڈائریکشن میں گریجویشن کیاہے۔ نوشہرو فیروز کنڈیارو پی ایس 32سے آزاد امیدوار کے طور پر 2024 کےانتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکیں تھیں۔کہتی ہیں ہم ایک روایتی سماج میں رہتے ہیں اس کا حصہ ہے۔ایک عورت کا سیاست کرنا بہت ہی اس کے لیے مشکل کام ہوتا ہے۔

جب ایک خاتون غریب گھرانے یا مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے تو انہیں اس نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ شادی کریں بچے پیدا کریں گھر سبھالے شوہر کا خیال رکھیں گھر کا کام کریں ۔ہم ووٹ لینے کےلیے عوام کے پاس جاتے ہیں اب تک  سندھ کی عوام میں اتنا شعور اجاگر نہیں ہواہے کہ وہ عورت کی حیثیت کو ایک لیڈر کے طور پر تسلیم کریں اور اسے ووٹ دیں بےنظیر بھٹو حالات کی پیدوار تھی بھٹو کی  بیٹی تھی شاید اس وجہ سے انہیں ذیادہ پذیرائی ملی اور انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں تھیں۔

انیلا رفیق ملاح نوجوان سیاست دان ہے عام انتخابات میں انہوں نے پہلی بار حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکیں تھیں۔ یہ نواب شاہ پی ایس 37سے2024  کے انتخابات میں حصہ لیا تھا کہتی ہے الیکشن میں حصہ لینے عمل میں کوئی مشکلات سامنے نہیں آئی لیکن ہار جیت کا فیصلہ عوام کرتی ہے اور عوام ابھی تک نہیں جاگی ہے شاید تھوڑا مزید وقت لگے گا لیکن یہ سب ٹھیک ہوکر رہےگا۔

منگلا شرما سندھ کے دارالحکومت کراچی سے وابستہ سیاست دان ہیں وہ اگست 2018 میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے خصوصی نشست پر سندھ اسمبلی کی رکن بنی تھیں۔

منگلا شرما نے پاک ہندو ویلفیئر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جو اقلیتوں کے لیبر اور سماجی حقوق پر کام کرتی ہے۔ منگلا شرما نے 2000 میں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا ۔ وہ یونین کونسل سے جیتیں، جس کے بعدں سٹی کونسل میں 2005 تک رہیں پھر دوبارہ 2016 کونسل میں دوبارہ آئیں۔

آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے سیاست کو نچلی سطح سے شروع کیا۔انکا ماننا ہے اقلیت ہو یا خواتین پارٹی ٹکٹ اہمیت رکھتاہے سب سے پہلے تو پارٹی ٹکٹ ملے اس کے بعد کیس عوام کی عدالت  میں جاتاہے اگر وہ حق رائے دہی درست استعمال کریں تو خواتین آگے آسکتی ہیں لیکن یہ ایک حیران کن بات ہے پورے سندھ اور خاص طورپر کراچی سے خواتین جنرل نشستوں پر کم کیا نہ ہونے برابر کامیاب ہوتی ہیں اور نکا ریشو کم ہے یہ بڑھ نہیں رہاہے جو کہ ایک تشویشناک بات ہے۔

سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ کراچی سے یا پھر سندھ سے جنرل سیٹ پر خواتین کا بڑی تعداد میں  منتخب نہ ہونے کا اہم سبب پارٹی کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہونا ہے۔ اس پر سیاسی جماعتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  پارٹیاں اپنے من پسند لوگوں میں ٹکٹ تقیسم کرتی ہیں۔

خوش بخت شجاعت کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں۔ انہوں نے تعلیم، پاکستان ٹیلی ویژن، پھر سیاست میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ خوش بخت شجاعت کہتی ہیں کہ خواتین بے شمار صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں، میں سمجھتی ہوں جیتے کےلیے خواتین میں بھی قابلیت ہونی چاہیے کہ وہ کسی کو قائل کرسکیں اسے یقین دلا سکیں ہاں میں کام کرسکتی اور سماج نظام میں بدلے میں، میں سب سے آگے ہونگی۔

ایم کیو ایم کی رعنا انصار سندھ اسمبلی کی پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئی ہ تھی وہ کہتی ہیں کہ  خواتین کا حلقے میں جانا اور لوگوں سے ملنا ملانا یہ ایک اہم پیش رفت ہوتی ہے الیکشن میں حصہ لینے کو ہمارے یہاں معاشرے کے رویوں کی وجہ سے تھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

نہ کارنر میٹنگز میں خواتین جا پاتی ہیں، نہ رات میں نکل سکتی ہیں۔ ہمارا اب تک وہ ماحول ہی نہیں بنا جس میں خواتین آزادانہ طور پر کام کر سکیں۔جب تک خواتین سماج کو عوام کو منوائے گی نہیں وہ کیسے کامیاب ہوسکتی ہے پھر پارٹی ٹکٹ اہمیت رکھتاہے۔

سینیئر تجزیہ نگار ناصر بیگ چغتائی کہتے ہیں کہ کراچی سے جنرل سیٹ پر کسی خاتون امیدوار کا منتخب ہو کر نہ آنا ایک المیہ ہے، افسوسناک بات ہے۔

نتاشا  ایم بی اے کی اسٹوڈنٹ ہیں کہتے ہیں کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کوئی خاتون امیدوار کھڑی ہو تو اس کو ووٹ دیں لیکن ہمارے حلقے سے خاتون امیدوار کھڑی ہی نہیں ہوتیں ہیں۔

ساجدہ اسکول ٹیچر ہیں کہتی ہےکہ خواتین کوووٹ دینے کو جی چاہتاہے لیکن ہمارا فیملی سسٹم ایساہے وہ پریشردیتا رہتاہے کہ اس پارٹی کو ووٹ دیناہے اس کو نہیں۔

رابعہ بینک میں کام کرتی ہیں ۔ کہتی ہیں کہ خواتین ہو یا مرد فرق نہیں پڑتا اسے کام کرنا چاہیے عوامی مسائل حل کرنے لیے

۔انیس بابر میڈیا میں کریٹو ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں کہتے ہیں اگر خاتون ذہین ہے باصلاحیت خوشی ہوتی ہے اسے ووٹ دینے میں ماضی میں بھی ہم نے ووٹ دیئےہیں ہمارے یہاں مردوں کی نسبت خواتین کو ٹکٹ ہی کم ملتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہناہےکہ پانچ کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے میں تقریبا 47 فی صد خواتین کے ہونے کے باوجود  جنرل نشستوں پر خواتین امیدروں کا تناسب 4 اعشاریہ چار فی صد  ہونے کے باوجود صرف تین خواتین کامیاب ہوسکیں ہیں جوکہ  ایک لمحکہ فکریہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے