
کراچی کنکریٹ کا جنگل بنا، تواس کا درختوں سے ناطہ ٹوٹ گیا۔کبھی شہر میں جگہ جگہ نظر آنے والے برگد کے درخت اب چند علاقوں تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔
اولڈ کلفٹن میں لگے برگد کے قدیم درخت توجہ کے طلبگار ہیں۔ یہ

قومی ورثہ تو قرار پائے، لیکن انہیں وہ توجہ نہ مل سکتی۔ خاموش درختوں کی پکار سنتے ہیں

انسانوں کے لئے گھنی چھاوں کا ذریعہ اور جانوروں کا پسندیدہ مسکن ، جی ہاں ذکر ہو رہا ہے، ہزار سال تک عمر رکھنے والے برگد کے درخت کا۔

کبھی کراچی کی سڑکوں اور باسیوں کی برگد سے خوب شناسائی تھی، لیکن بدلتے دور میں کنکریٹ کےمضبوط ڈھانچوں نے اس رشتے کو کمزور کردیا۔

برگد اب شہر میں چند ایک مقامات پر ہی دکھائی دیتا ہے، ان میں دو تلوار چورنگی سے شاہراہ ایران یا حاتم علوی روڈ جانے والی سڑک بھی شامل ہے۔

کئی سال پرانے یہ 68 درخت ایک اثاثہ ہیں جنہیں سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں قومی ورثہ تو قرار دیا گیا،لیکن ان پر توجہ نہ دی گئی۔
ماہرین نباتات کہتے ہیں برگد کا درخت ہر قسم کی زمین میں اپنی جڑیں گہرائی تک پھیلا لیتا ہے، اور اسے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اولڈ کلفٹن میں موجود برگد کے ان درختوں کی دیکھ بھال کا منصوبہ،، علاقے کے ایکو سسٹم کو بحال کرنےکی کوشش میں پہلا قدم ہے۔
قدرتی ورثہ کے تحفط کی خاطر شاہراہ ایران پر کچھ درختوں کو بحال کردیا گیا لیکن حاتم علوی روڈ پر موجود درخت آج بھی غیر محفوظ ہیں ۔

میئر کراچی مرتضی وہاب کہتے ہیں برگد کے ان درختوں کی دیکھ بھال میں حکومتی اداروں کے ساتھ سول سوسائٹی کو بھی کردارادا کرنا ہوگا۔

برگد کے کچھ درختوں کو دیمک نے چاٹ کھایا، اوپر سے فٹ پاتھ بننے سے ان کے پھلنے پھولنے،، یہاں تک کے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔

ادب میں دیومالائی کردار کے حامل اور کچھ مذاہب میں مقدس درجہ رکھنے والا برگد کا درخت کراچی میں اپنی بقا کے لئے کچھ توجہ کا منتظر ہے۔

ماہرین کہتے ہیں ان درختوں کی چھٹائی اور دیکھ بھال سے ان کو گرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔اس کی گھنٹی چھاوں شہریوں کی بیٹھک بن سکتی ہے۔
